TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –26 MAY
پچھلے چند برسوں سے وطن عزیز بھارت کو ’’ہندو راشٹر ‘‘ قرار دئے جانے کی بات بڑی زور و شور سے کی جانےلگی ہے۔ ایک نو عمر بابا نے تو پچھلے دنوں پٹنہ میں ’’ہنومنت کتھا ‘‘ کے نام پر یہاں تک کہہ دیا کہ بھارت ہندو راشٹر ہے ہی، صرف اعلان کیا جانا باقی ہے۔اس کے علاوہ اور بھی کئی سیاسی بابا ہیں جو اپنی سیاست کو چمکانے کے لئے شب و روز ’’ہندو راشٹر ‘‘کی مالا جپتے اور ملک کے بھولے بھالے عوام کے جذبات سے کھیلتے رہتے ہیں۔ایسے باباؤں کی تعداد کتنی ہے یہ بتانا تھوڑا مشکل ہے۔ہاں ، اتنا کہا جا سکتا ہے کہ سیاست کے میدان میں جلد سے جلد مشہور ہونے کے لئے ’’ہندو راشٹر ‘‘ کی جاپ سے بڑھیا کوئی منتر نہیں ہے۔
اسی بھیڑ چال کے درمیان ان دنوں سوامی اویمکتیشورانند سرسوتی کا ایک بیان وائرل ہو رہا ہے۔ ’’ہندو راشٹر ‘‘کے مطالبے پرانھوں نے جو کچھ کہا ہے اس کی لوگ تعریف کر رہے ہیں اور اسے نظریاتی روشن خیالی قرار دے رہے ہیں۔ کئی ہندو اور مسلم کمیونٹیز کے لوگوں نے ٹوئٹر پر ان کی تعریف کی ہے۔ تقریباً 4 منٹ کے وائرل ویڈیو میں شنکراچاریہ اویمکتیشورانند کہتے ہیں کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں سیاست بہت ہے۔درمیان میں ایک لکیر کھینچی جاتی ہے، دیکھا جاتا ہے کہ ہم دائرے میں ہیں یا نہیں۔ اگر یہ ہمارے مقصد میں ہے تو یہ بالکل اچھا ہے چاہے وہ کچھ بھی ہو اور اگر یہ ہمارے مقصدکے مطابق نہیں ہے تو بہت برا ہے چاہے وہ کچھ بھی ہو۔ ہم لوگوں نے یہی رویہ اپنا رکھا ہے۔ سوامی جی کہتے ہیں کہ ابھی ملک میں گولبندی کو ہی سیاست کہا جانے لگا ہے۔ لفظ ’’نیتی ‘‘ بہت اونچا لفظ ہے۔ دھرم کی مانند ہے اور’’ راج نیتی‘‘ یعنی راجہ کے ذریعہ تعمیل کی جانے والی نیتی ۔لیکن ان دنوںدھرم اور سیاست کو گڈ مڈ کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ لفظ ’’سیاست‘‘ کا ذکر رامائن اور مہابھارت میں بھی ہوا ہے۔ سیاست ہو تو الگ بات ہے لیکن آج کل یہ سیاست نہیں ہو رہی ہے۔ آج پولرائزیشن یا موبلائزیشن کی سیاست ہے۔ اس قسم کی سیاست میں ایک لفظ استعمال ہوتا ہے’’ہندو راشٹر‘‘۔’’ہندو راشٹر‘‘ کا مطلب ہے ہندوؤں کی گولبندی۔ایسے میںفطری طور پر یہ ہوگا کہ جو ہندو نہیں ہوگا، اس کے ساتھ غیر جیسا سلوک کیا جائے گا۔ اس لئے اس ملک کو ’’ہندو راشٹر ‘‘ نہیں بلکہ ’’رام راجیہ ‘‘ بنانے کی ضرورت ہے، جس میں مذہبی بھید بھاؤ کے بغیر سب کو وقار کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہو۔
کچھ اسی طرح کی باتوں کو لیکر رابن ہڈ آنند موہن ان دنوں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ہندوستان کو ’’ہندو راشٹر‘‘ بنانے کے لیےچند سیاست باز سادھوؤں اور سادھویوں کے اعلانات کے درمیان یہ سوال اٹھاتے ہوئے آنند موہن کہہ رہے ہیں کہ رامائن، مہابھارت میں لفظ ’’ہندو‘‘ کا ذکر ہی نہیں ہے۔ وہاں تو لفظ ’’کھشتری‘‘ کا استعمال ملتا ہے۔اس بحث کو اس وقت اڑان ملی جب آنند موہن ایک جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے۔ سابق ایم پی نے ’’ہندوتو‘‘کی سیاست میں یہ کہہ کر ہلچل مچا دی کہ رامائن، گیتا، مہابھارت میں’’ ہندو‘‘ لفظ کہیں نہیں ملے گا۔ لیکن’’ کھشتری‘‘ کا لفظ ملے گا۔ لیکن مہارانا پرتاپ کو ہندو دھرم سے جوڑا جا رہا ہے۔جبکہ مہارانا پرتاپ کے سپہ سالارحکیم خان سورتھے اکبر کا سپہ سالارمان سنگھ۔ آنند موہن کی اس حق بیانی کو سیاست کے بازار میںدوسری نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔کہا جا رہا ہے کہ
آج لفظ’’ ہندو ‘‘کے بارے میں آنند موہن کا جو بیان سامنے آیا ہےوہ کسی نہ کسی طرح عظیم اتحاد کی سیاست کے حق میں اور بی جے پی کے خلاف کھڑا نظر آتا ہے۔ان کے بیان کو مسلمان اور راجپوت کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔جب آنند موہن کو نئے قانون کا فائدہ دیا جا رہا تھا تب بھی سیاسی حلقوں میں یہ چرچا تھا کہ یہ ملک کی سطح پر راجپوتوں کو بی جے پی کے خلاف اور عظیم اتحاد کی حمایت میں اکٹھا کرنے کی کوشش ہے، لیکن آنند موہن کی حق بیانی پر کہیں کوئی گفتگو نہیں ہو رہی ہے۔ لیکن جب سوامی اویمکتیشورانند سرسوتی اور آنند موہن کے بیانات کو جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے تو ٹھیک وہی بات سامنے آتی جیسے، آج کی سیاست چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔لیکن بھارت کے عوام اس بات کو اچھی طرح سے جانتے ہیںکہ آج کی سیاست حقیقت سے کوسوں دور ہو گئی ہے۔ سوامی اویمکتیشورانند سرسوتی کے مطابق ’’دھرم اور راجنیتی گڈ مڈ ہو کر پولرائزیشن یا موبلائزیشن کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
************