Pin-Up Казино

Не менее важно и то, что доступны десятки разработчиков онлайн-слотов и игр для казино. Игроки могут особенно найти свои любимые слоты, просматривая выбор и изучая своих любимых разработчиков. В настоящее время в Pin-Up Казино доступно множество чрезвычайно популярных видеослотов и игр казино.

اداریہ

کیا جمہوریت اس کی اجازت دیتی ہے ؟

Written by Taasir Newspaper

TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –20  MAY

دہلی حکومت کو سپریم کورٹ سے افسران کے تبادلے کا حق حاصل ہوئے ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ مرکزی حکومت نے20 مئی کو ایک آرڈیننس جاری کرکے یہ حق دوبارہ ایل جی کو سونپ دیاہے۔ مرکزی حکومت نے دہلی میں افسران کے تبادلے اور تعیناتی کے لیے نیشنل کیپیٹل سول سروسز اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا ہے۔ آرڈیننس کے مطابق، دہلی کے وزیر اعلیٰ اتھارٹی کے سابق صدر ہوں گے، جب کہ دہلی کے پرنسپل ہوم سکریٹری اتھا ریٹی کے ممبر سکریٹری ہوں گے۔ چیف سیکرٹری بھی اس کے رکن ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی مرکز نے سپریم کورٹ کے 11 مئی کے فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے، جس میں دہلی حکومت کو نوکرشاہوں کے تبادلے کا اختیار ملا تھا۔اس آرڈیننس کو لیکر ایک بار پھر مرکزی حکومت اور دہلی حکومت کے درمیان سیاست گرم ہو گئی ہے۔

  اس آرڈیننس کے خلاف دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کا ناراض ہونا فطری ہے۔ا ن کا سیدھا الزام ہے کہ مرکز کی طرف سے جاری آرڈیننس کے ذریعہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو پلٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ آرڈیننس جاری ہونے سے صرف ایک ہفتہ قبل سپریم کورٹ نے قومی راجدھانی میں پولیس، لاء اینڈ آرڈر اور دیگر تمام خدمات کا کنٹرول دہلی حکومت کو سونپ دیا تھا۔ مرکز کے اس نئے آرڈیننس سے سپریم کورٹ کا مذکورہ فیصلہ پوری طرح سے متاثر ہوتا ہے۔شایدیہی وجہ ہے کہ دہلی سی ایم اروند کیجریوال نے مرکز کے آرڈیننس کو سپریم کورٹ کے ساتھ دھوکہ قرار دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ مرکز کا یہ آرڈیننس سپریم کورٹ کی طرف سے دہلی کی منتخب حکومت کو دیئے گئے اختیارات کو چھیننے کی کوشش ہے۔ مرکز دہلی حکومت کے کام کو روکنے کے لیے ایسا کر رہا ہے۔مرکزی حکومت نے یہ غیر آئینی آرڈیننس ایسے وقت میں لایا ہے جب سپریم کورٹ تعطیل کی وجہ سے بند رہے گا۔

  قابل ذکر ہے کہ مرکز کے آرڈیننس میں یہ کہا گیا ہے کہ نیشنل کیپٹل پبلک سروس اتھارٹی کے نام سے ایک اتھارٹی ہوگی، جو اس کو دیئے گئے اختیارات کا استعمال کرے گی اور اس کو تفویض کردہ ذمہ داریوں کو پورا کرے گی۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ اتھارٹی میں اس کے چیئرمین ہوں گے۔  اس کے علاوہ چیف سیکرٹری اور پرنسپل ہوم سیکرٹری ممبران ہوں گے۔ آرڈیننس کے مطابق، اتھارٹی کی طرف سے طے کیے جانے والے تمام مسائل کا فیصلہ موجود اراکین کی اکثریت اور ووٹنگ کے ذریعے کیا جائے گا۔ اتھارٹی کی تمام سفارشات کی تصدیق ممبر سیکرٹری کریں گے۔

دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کو خدمات کا کنٹرول واپس دینے کے لئے مرکز کی جانب سے جاری مذکورہ آرڈیننس کے ایک دن بعد سے ہی اس کی مخالفت شروع ہو گئی ۔ دہلی کی اروند کیجریوال حکومت وزیر سورو بھاردواج، آتشی اور ایم پی راگھو چڈھا نے کو کہا کہ ان کی پارٹی دہلی میں ’’غیر قانونی اور غیر آئینی‘‘ آرڈیننس کی مخالفت کرے گی۔ ہم سڑک پر، پارلیمنٹ میں اور عدالت میں بھی اس غیر قانونی غیر آئینی آرڈیننس کی مخالفت کریں گے۔ ہم اپنےقانونی اور آئینی ماہرین سے مشورہ کرنے کے بعد کب اور کیسے عدالت سے رجوع کرنا ہے اس کا فیصلہ کریں گے۔اس سے قبل ایک پریس کانفرنس کے دوران، آتشی نے قومی دارالحکومت میں خدمات کے ضابطے سے متعلق آرڈیننس کے لیے مرکز پر تنقید کی اور کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت یہ برداشت نہیں کر سکتی ہے کہ سپریم کورٹ نے دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کو جو ’’اختیارات‘‘ دیے ہیں، ان کا وہ استعمال کر سکیں۔ یہ آرڈیننس گورنمنٹ آف نیشنل کیپیٹل ٹیریٹری آف دہلی ایکٹ 1991 میں ترمیم کے لیے لایا گیا ہے اور اس کے ذریعہ مرکز بمقابلہ دہلی کے معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو روکنے کی کوشش کی گئی ہےسپریم کورٹ کے حکم کا مطلب یہ ہے کہ اگر دہلی کے لوگوں نے اروند کیجریوال کو منتخب کیا ہے تو صرف ان کے پاس فیصلے لینے کا اختیار ہے۔

سیاسی مبصرین کا بھی یہی ماننا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے فیصلے کا مطلب یہی ہے کہ اگر دہلی کے عوام اروند کیجریوال کو منتخب کرتے ہیں، تو فیصلہ سازی کی طاقت ان کے پاس ہے۔ آئین بھی یہی کہتا ہے۔ تمام فیصلہ سازی کے اختیارات اس کے پاس ہیں، سوائے زمین، امن و امان اور پولیس کے مسائل کے۔یہی جمہوریت ہے۔لیکن مرکزی حکومت اور بی جے پی کے لئے جمہوریت ناقابل برداشت ہے۔اس معاملے میں مرکزی حکومت کا بھی اپنا موقف ہے، اس کے تحت وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ریویو پٹیشن کورٹ میں داخل کیا ہے۔آخری فیصلہ کیا ہوگا، یہ دیکھنے کی بات ہے۔ لیکن ابھی جو کچھ ہوا ہے یا ہو رہا ہے بادی النظر میں شایدجمہوریت اس کی اجازت نہیں دیتی ہے۔

************************

About the author

Taasir Newspaper