تاثیر،۱۷ نومبر۲۰۲۳:- ایس -ایم- حسن
نئی دہلی، 17 نومبر: دہلی ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت کو دہلی وقف بورڈ کی 123 جائیدادوں کا سروے مکمل کرنے کا وقت دیا ہے۔ آج مرکزی حکومت نے عدالت کو بتایا کہ 123 جائیدادوں میں سے اب تک 75 جائیدادوں کا سروے کیا جا چکا ہے، جب کہ باقی جائیدادوں کا سروے کرنے میں مزید دو سے تین ماہ لگیں گے۔ معاملے کی اگلی سماعت اپریل 2024 میں ہوگی۔
آج سماعت کے دوران مرکزی حکومت نے کہا کہ 75 جائیدادوں میں سے لینڈ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس نے 40 جائیدادوں کا سروے کیا ہے اور ڈی ڈی اے نے 35 جائیدادوں کا سروے کیا ہے۔ اس سے قبل کی سماعت کے دوران مرکزی حکومت نے دہلی وقف بورڈ کی طرف سے داخل کی گئی درخواست کی مخالفت کی تھی جس میں اس کی 123 جائیدادوں پر قبضہ کرنے کے مرکز کے حکم کو چیلنج کیا گیا تھا۔ ہائی کورٹ میں داخل کردہ حلف نامہ میں مرکزی حکومت نے کہا کہ دہلی وقف بورڈ ان جائیدادوں کا مالک نہیں ہو سکتا لیکن نگراں ہو سکتا ہے۔
مرکزی حکومت نے حلف نامہ میں کہا ہے کہ دہلی وقف بورڈ وقف املاک کی جانچ کی مخالفت نہیں کر سکتا، لیکن ان جائیدادوں کی حیثیت کو واضح کرے۔ مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ محض اس لئے کہ یہ جائیدادیں کچھ لوگوں کو لیز پر دی گئی ہیں، انہیں وقف جائیداد نہیں کہا جا سکتا۔ حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ دہلی وقف بورڈ کا قیام وقف ایکٹ کے تحت کیا گیا ہے۔
7 مارچ کو عدالت نے مرکزی حکومت کے حکم پر جمود کو بحال کرنے کا حکم دینے سے انکار کر دیا تھا۔ وقف بورڈ کی طرف سے پیش ہوئے ایڈوکیٹ راہل مہرا نے کہا تھا کہ مرکزی حکومت نے وقف بورڈ کی جائیدادوں کو اپنے قبضے میں لینے کی ایک بہت ہی گھٹیا وجہ بتائی ہے کہ وقف بورڈ کو ان جائیدادوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان جائیدادوں کی کم از کم پانچ بار چھان بین کی گئی اور ہر بار معلوم ہوا کہ ان کا تعلق وقف سے ہے۔ حتمی تحقیقات مرکزی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ایک رکنی کمیٹی نے کی تھی۔
مرکز نے ان جائیدادوں پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی وقف بورڈ مخالفت کر رہا ہے۔ دہلی وقف بورڈ نے مرکز کی طرف سے 8 فروری کو جاری کردہ خط کو چیلنج کرتے ہوئے ایک درخواست دائر کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ دہلی وقف بورڈ کی 123 جائیدادوں پر قبضہ کیا جائے گا۔ دہلی وقف بورڈ کی طرف سے پیش ہوئے سینئر وکیل راہل مہرا نے کہا کہ مرکزی حکومت کو وقف بورڈ کی جائیداد پر قبضہ کرنے کا حق نہیں ہے۔ وقف بورڈ کی ان جائیدادوں کی حد بندی 1970، 1974، 1976 اور 1984 کے سروے میں کی گئی تھی اور صدر جمہوریہ نے بھی اس پر اپنی رضامندی دی تھی۔