تاثیر ۶ اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
ڈھاکہ،06 اگست : بنگلا دیش میں بغاوتوں اور شورشوں کی ایک طویل تاریخ رہے۔ اس کی ٹائم لائن پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ سب سے پہلی بغاوت حسینہ واجد کے والد اور ملک کے پہلے وزیراعظم شیخ مجیب الرحمان کے خلاف ہوئی تھی۔اسی سال میں مزید دو اور بغاوتیں ہوئیں جن کے نتیجے میں نومبر میں جنرل ضیا الرحمان نے اقتدارسنبھال لیا تھا، 1981میں جنرل ضیا الرحمان کو چٹاگانگ میں سرکاری گیسٹ ہائوس کے اندر قتل کردیا تھا۔یہ کارروائی فوجی افسران کے ایک گروپ نے کی تھی، 1982میں جنرل ضیاالرحمان کے جانشین عبدالستار کو فوج نے جنرل محمد ارشاد کی فوجی بغاوت کے ذریعے نکال دیا تھا، جنرل ارشاد نے مارشل لاء منتظم کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا اور بعد میں صدربن گئے۔2007 میں آرمی چیف نے پھر ایک بغاوت کی اور 2 سالہ عبوری حکومت بنائی جس کے بعد 2009 میں شیخ حسینہ اقتدار میں آئیں۔2009 میں کم تنخواہوں پر بغاوت کرنے والے نیم فوجی دستوں نے ڈھاکا میں 70 افراد کو قتل کردیا جن میں زیادہ تر فوجی افسران تھے، یہ غدر درجن بھر شہروں تک پھیل گیا اور 6 دن جاری رہا جس کے بعد نیم فوجی دستوں نے مذاکرات کے ایک طویل سلسلے کے نتیجے میں ہتھیار ڈال دیے۔2012 میں بنگلا دیشی فوج کے بقول اس نے حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران کی جانب سے شریعہ انقلاب لانے کے لیے بغاوت ناکام بنادی۔تاہم 2024 میں اب بنگلا دیشی آرمی چیف وقار الزماں نے کہا ہے کہ حسینہ واجد نے کوٹا مخالف احتجاج کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔