تین طلاق کو جرم قرار دینے والے قانون کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت ملتوی

تاثیر  ۱۳   اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

نئی دہلی، 13 اگست: تین طلاق کو جرم قرار دینے والے قانون کے خلاف دائر درخواستوں کی منگل کو سپریم کورٹ میں سماعت نہیں ہو سکی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ طویل سماعت کا معاملہ ہے۔ یہ کیس کسی اور دن درج ہونا چاہیے۔
یہ درخواستیں 2019 سے زیر التوا ہیں۔ کہا گیا ہے کہ تین طلاق دینے پر 3 سال کی سزا بہت سخت قانون ہے۔ تین طلاق سے متعلق قانون کو چیلنج کرنے کے معاملے پر مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے تین طلاق کو غیر آئینی قرار دینے کے باوجود اسے روکا نہیں جا سکا۔ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں داخل کیے گئے حلف نامہ میں کہا ہے کہ عدالت کے فیصلے کے بعد بھی ملک بھر میں سیکڑوں معاملے سامنے آئے، ایسے میں مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ قانون لانا ضروری ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی وقت کی ضرورت تھی، ایسے کیسز میں 3 سال تک کی سزا نے اسے روکنے میں مدد دی ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے تین طلاق قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔ بورڈ نے کہا ہے کہ طلاق بدعت کو جرم قرار دینا غیر آئینی ہے۔ اس مسئلہ پر جمعی? علماء￿ ہند کی تین عرضیاں پہلے ہی زیر التوا ہیں۔ عدالت نے ان پر 13 ستمبر 2019 کو نوٹس جاری کیا تھا۔ درخواست گزار کی جانب سے سینئر وکیل سلمان خورشید نے کہا تھا کہ ایسی پریکٹس کے لیے سزا کا بندوبست کیوں ہے جسے سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ تین سال کی قید والا سخت قانون خاندان کے مفاد میں نہیں ہے۔
جمعی? علماء ہند کی عرضی تین طلاق کے قانون پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ تین طلاق پر پابندی لگانے والا حالیہ قانون آئین کی بنیادی روح کے مطابق نہیں ہے۔ وکیل اعجاز مقبول کے توسط سے دائر درخواست میں اس قانون کو روکنے کے لیے گائیڈ لائنز جاری کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس قانون کو لاگو کرنے کی ایسی کوئی صورت نہیں تھی کیونکہ اس طرح کی طلاق کو سپریم کورٹ پہلے ہی غیر آئینی قرار دے چکی ہے۔