تاثیر ۸ اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
نئی دہلی،08 اگست : بنگلہ دیش کے حالات پر اپوزیشن لیڈران مودی سرکار کو بھی نشانہ بنارہے ہیں اور اسے آئینہ دکھاتے ہوئے اپنا رویہ اور کام کاج درست کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس تعلق سے مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ ” بنگلہ دیش میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام کے صبر کا امتحان اگر لیا جائے گا تو ایسا ہی ہو گا۔ یہ مودی حکومت کے لئے تازیانہ ہے۔ اسے ابھی سے سنبھل جانا چاہئے ورنہ اس کا حشر کیا ہو گا سبھی جانتے ہیں۔” ادھوٹھاکرے نے بی جے پی پر طنز کیا کہ اگر بی جے پی اور ان کے ‘پاپا’ یوکرین میں جنگ رُکواسکتے ہیں تو انہیں بنگلہ دیش میں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔ وہاں ہندو اقلیت پر ظلم ہو رہا ہے، کیا یہ بی جے پی کو نظر نہیں آرہا؟ مودی حکومت کو فوراً مداخلت کرنی چاہئے۔ کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ ٰمحبوبہ مفتی نیکہا کہ ”بنگلہ دیش کے حالات ہمارے لئے اور خاص طور پر دہلی میں برسراقتدار پارٹی کے لئے سبق ہیں کہ ڈکٹیٹر شپ اور مطلق العنانی بہت دنوں تک قائم نہیں رہ سکتے۔ عوام کا غصہ جب ابلتا ہے تو پھر بڑے سے بڑا ڈکٹیٹر بھی تنکے کی طرح بہہ جاتا ہے۔” کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق وزیر سلمان خورشید نے کہا کہ” جو بنگلہ دیش میں ہو رہا ہے وہ یہاں بھی ہو سکتا ہے۔ ڈکٹیٹر شپ کے خلاف غصہ ابلنے میں دیر نہیں لگتی ۔ ” بی جے پی لیڈر اور مودی کے سب سے بڑے ناقد سبرامنیم سوامی نے تو نہایت سخت تنقید کی ہے۔ انہوں نے ٹویٹ کیا کہ ” جب بنگلہ دیش کے مسلمانوں نے جب شیخ حسینہ کا تختہ پلٹ کیا اور وہ یہاں آئیں تو مودی کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ بلکہ اب بھی ان کا وہی حال ہو گا۔ مودی اس وقت بھی ڈر گئے تھے جب چین نے لداخ میں ہماری زمین پر قبضہ کرلیا تھا۔ وہ اس وقت بھی ڈر گئے تھے جب مالدیپ جیسے چھوٹے سے ملک نے ہمیں وہاں سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ اب مجھ سے نیپال کے بارے میں کچھ مت پوچھئے گابلکہ مودی سے کہئے کہ وہ استعفیٰ دے دیں۔ ”