تاثیر ۵ اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
نئی دہلی، 05 اگست: ان اطلاعات کے درمیان کہ مرکزی حکومت وقف بورڈ کے اختیارات کو محدود کرنے کے لیے ایک بل پیش کر رہی ہے، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) نے اتوار کو کہا کہ وہ وقف ایکٹ 2013 میں کسی بھی ایسی تبدیلی، جس سے وقف املاک کی حیثیت اور فطرت بدل جائے یا انہیں ہڑپنا سرکار یا کسی شخص کیلئے آسان ہوجائے، ہرگز قبول نہیں ہوگا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ وقف بورڈ کے حقوق کو کم یا محدود کرنا بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک پریس بیان میں کہا کہ مصدقہ معلومات کے مطابق حکومت ہند وقف ایکٹ 2013 میں تقریباً 40 ترامیم کے ذریعے وقف املاک کی حیثیت اور نوعیت کو تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ ان پر قبضہ کرنا اور انہیں ہڑپنا آسان ہوجائے۔ یہ بل اگلے ہفتے پارلیمنٹ میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ یہ واضح کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ وقف املاک مسلم بزرگوں کے ذریعہ دئے گئے تحفے ہیں اور مذہبی اور خیراتی مقاصد کے لیے وقف ہیں۔ حکومت نے وقف ایکٹ صرف ان پر کنٹرول کرنے کے لیے بنایا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ وقف ایکٹ اور وقف املاک کو ہندوستانی آئین اور شریعت ایپلیکیشن ایکٹ 1937 کے ذریعے بھی تحفظ حاصل ہے۔ اس لیے حکومت ہند اس قانون میں ایسی کوئی ترمیم نہیں کر سکتی، جس سے ان جائیدادوں کی نوعیت اور حیثیت بدل جائے۔ رسول الیاس نے کہا کہ اب تک حکومت نے مسلمانوں سے متعلق جتنے بھی فیصلے اور اقدامات کئے ہیں، ان میں ان سے کچھ چھینا ہے اور کچھ نہیں دیا، خواہ وہ مولانا آزاد فاؤنڈیشن کو بند کیا جانا ہو، یا اقلیتی اسکالر شپ کو رد کرنا ہوا، یا پھر تین طلاق سے متعلق قانون ہو۔انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رہے گا۔ وقف املاک پر چوٹ کرنے کے بعد خدشہ ہے کہ اگلا نمبر سکھوں اور عیسائیوں کی وقف املاک اور پھر ہندوؤں کی مٹھوں اور دیگر مذہبی جائیدادوں کا بھی آ سکتا ہے۔ ڈاکٹر الیاس نے واضح کیا کہ مسلمان وقف ایکٹ میں ایسی کسی بھی ترمیم کو کبھی قبول نہیں کریں گے جس سے اس کی حیثیت بدل جائے۔