نظارہ کچھ اور دکھائی دے رہا ہے

تاثیر  ۱۳  ستمبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

ہماچل پردیش کی راجدھانی شملہ سے تقریباََ 135 کلومیٹر مغرب جانب واقع شہر منڈی میں ہند تو وادی تنظیموں کی ہنگامہ آرائی کے بعد شہر کے مسلمانوں نے جیل روڈ کی ایک مسجد کے غیر قانونی حصےکو کل بروز جمعہ خود ہی توڑدیا۔ہندو تو وادی تنظیموں کا یہ دعویٰ تھا کہ مسجد کے کچھ حصے کی تعمیر محکمہ تعمیرات عامہ کی زمین پر کی گئی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق مسجد کی غیر قانونی تعمیر کے خلاف مختلف ہندوتو وادی تنظیموں نے جمعہ کو ایک احتجاجی ریلی نکالی۔ ریلی کو دیکھتے ہوئے پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن کا بھی استعمال کیا۔ منڈی میں اس بڑے ہنگامے کے بعد منڈی کے ڈپٹی کمشنر اپوروا دیوگن نے کہا کہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ مسجد کو سیل کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ نے مسجد کی بجلی اور پانی کی سپلائی کاٹ دی ہے۔ساتھ ہی میونسپل کارپوریشن بھی کارروائی کر رہا ہے۔ اراضی کا ریکارڈ مسجد کے نام ہے، پی ڈبلیو ڈی کی زمین پر صرف کچھ تجاوزات ہیں۔تجاوزات کو ہٹانے کے لئے ضروری کارروائی کی جائے گی۔ اسی دوران مسجد انتظامیہ کمیٹی کے ذمہ داروں نے کل بروز جمعہ آگے بڑھ کر خود ہی اس متجاوز حصے کو منہدم کرنے کی اجازت لیکر ، اسے توڑ دیا۔مسجد کی باہری دیوار پر ہتھوڑ ا چلاتے ہوئے ، مسجدانتظامیہ کمیٹی کے رکن اقبال علی کا کہنا تھا کہ مسجد کے غیر قانونی حصے کو کسی دباؤ میں نہیں توڑا جا رہا ہے۔ہم انتظامیہ کے احکامات پر عمل کر رہے ہیں۔ معاشرے میں باہمی ہم آہنگی اور بھائی چارے کو برقرار رکھنے کے لئے ایسا کیا جا رہا ہے۔انھوں نے بتایا کہ مسجد نجی زمین پر بنائی گئی ہے۔ اس کا غیر قانونی حصہ گرایا جا رہا ہے۔اس سے ہماری نماز کی ادائیگی میں کوئی خلل نہیں پڑے گا۔مسلمانوں کے اس فیصلے سے اب منڈی میں ماحول پر امن ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے کل ہندوتو وادی تنظیموں کے للکارنے پر ان کی حمایت میںبڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے۔انھوں نے مظاہرہ کیا اور شہر میں احتجاجی ریلی بھی نکالی۔حالات کو قابو میں کرنے کے لئے پولس فورس کو تھوڑی سختی سے بھی کام لینا پڑا تھا۔ اس کے بعد مسجد کے غیر قانونی حصے کو توڑنے کے لئے مسلم کمیونٹی کے لوگ خود ہی آگے آگئےتھے۔ اس پہل کے لئے ان کی ہر سطح پر ستائش ہو رہی ہے۔

دوسری جانب ہماچل پردیش کے شملہ کے مضافات میں سنجولی بازار واقع مسجد تنازع کو ختم کرنے کے لئے مقامی مسلمانوں کی ایک جماعت سامنے آئی ہے۔انھوں نےمعاملے کو رفع دفع کرنے کے مقصد سے مسجد کے غیر مجاز حصے کو سیل کرنے کی درخواست گزشتہ جمعرات (12 ستمبر، 2024) کو مسلم ویلفیئر کمیٹی نے شملہ میونسپل کمشنر کو ایک میمورنڈم دیا۔ ساتھ ہی مسجد کے متنازع حصہ کو منہدم کرنے کی پیشکش بھی کی۔ وفد میں مسجد کے امام اور وقف بورڈ اور مسجد مینجمنٹ کمیٹی کے ارکان شامل تھے۔ وفد نے شملہ میونسپل کمشنر بھوپیندر اتری سے ایک ملاقات کر کے انھیں عرضی دی۔ ساتھ ہی کہا کہ اس علاقے میں رہنے والے ہم مسلمان ہماچل پردیش کے مستقل باشندے ہیں۔ہم سماجی ہم آہنگی اور بھائی چارے کو برقرار رکھنے کے لیے یہ قدم اٹھا رہے ہیں۔ فلاحی کمیٹی کے رکن مفتی محمد شفیع قاسمی کا کہنا تھا کہ ہم نے شملہ میونسپل کمشنر سے سنجولی میں واقع مسجد کے غیر مجاز حصے کو منہدم کرنے کی اجازت طلب کی ہے۔سنجولی مسجد کے امام نے کہا کہ ہم پر کوئی دباؤ نہیں ہے، ہم یہاں کئی دہائیوں سے رہ رہے ہیں ۔یہ فیصلہ ہماچل کے باشندگان کی جانب سے لیا گیا ہے۔ ہم امن سے رہنا چاہتے ہیں اور بھائی چارہ قائم رکھنا چاہتے ہیں۔شملہ میونسپل کمشنر بھوپیندر اتری نے میمورنڈم کی وصولی کی تصدیق کی ہے۔ ساتھ مسلمانوں کی اس پیش کش کا خیر مقدم کیا ہے۔

دریں اثناءدیو بھومی سنگھرش کمیٹی کے ارکان، جنہوں نےسنجولی مسجد میں غیر مجاز تعمیرات کے خلاف احتجاج کی کال دی تھی، نے بھی مسلمانوں کی اس پہل کا استقبال کیا ہے۔ کمیٹی کے رکن وجے شرما نے کہا، ہم مسلم کمیونٹی کے اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں اور سماجی تانے بانے کے وسیع تر مفاد میں یہ پہل کرنے پر سب سے پہلے مسلم بھائیوں کو گلے لگائیں گے۔قابل ذکر ہے کہ مسجد کی غیر مجاز دو منزل کو منہدم کرنے اور ریاست میں آنے والے بیرونی لوگوں کے اندراج کا مطالبہ کرنے والی ہندو تنظیموں نے گزشتہ بدھ (11 ستمبر 2024) کو سنجولی بند کی کال دی تھی۔ حالانکہ مسجد کی غیر مجاز حصے کا معاملہ شملہ میونسپل کارپوریشن میں 10 سالوں سے میونسپل کمشنر کی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ گزشتہ جمعرات (5 ستمبر، 2024) کو ہندتو وادی گروپوں نے اپنے مطالبات کو منوا نے کی خاطر دباؤ ڈالنے کے لیے، ودھان سبھا اور سنجولی کے آس پاس، شملہ کے چورا میدان میں زبردست احتجاج کیاتھا۔

اِدھر ہماچل پردیش میں مسجد کو لے کر جاری تنازع کے حوالے سے سوشل میڈیا کے توسط سے لوگ اپنے اپنے ڈھنگ سے اظہار خیالات کر رہے ہیں۔ایک خاص ذہنیت کے لوگوں میں جہاں خوشی ہے وہیں کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ہماچل کی کانگریس سرکار نے ہندوتو تنظیموں کے آگے گھٹنے ٹیک دئے ہیں۔ وہ پوری طرح دباؤ میں ہے ۔شملہ کی آگ منڈی تک پہنچ گئی ہے۔ شملہ کی طرح منڈی میں بھی ہندوتووادی طاقتوں کی طرف سے وہی حکمت عملی اپنائی گئی، ویسا ہی آندولن، ویسے ہی سارے طریقے اختیار کئے گئے اور وہ اپنے مقصد میںکامیاب ہوگئے۔حالانکہ ہماچل پردیش کے وزیر اعلی سکھویندر سنگھ سکھو کا کہنا ہے کہ یہ ایک امن پسند ریاست ہے۔یہاں تمام مذاہب کا احترام کیا جاتا ہے۔ کسی مذہب یا ذات کو ٹھیس نہیں پہنچائی جائے گی۔وزیر اعلیٰ کے اس خیال کو جب کچھ لوگ ریاست کی موجودہ صورتحال کے آئینہ میں دیکھتےہیں تو نظارہ کچھ اور دکھائی دے رہا ہے۔