تاثیر 11 مئی ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
پہلگام حملے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی نے ایک نئے محاذ کی شکل اختیار کر لی ہے، جہاں روایتی ہتھیاروں کی جگہ معلوماتی جنگ نے اہم کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ اگرچہ فریقین کے درمیان سیز فائر ہو چکا ہے، لیکن انفارمیشن وار فیئر کا سلسلہ جاری ہے، جو عالمی سطح پر دونوں ممالک کی ساکھ اور اثر و رسوخ کی جنگ کا نیا میدان بن چکا ہے۔ اس تناظر میں چین اور ترکی کا کردار نہایت قابل توجہ ہے، جنہوں نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیکر اس کی جھوٹی داستانوں کو عالمی میڈیا کے ذریعے پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاہم، یہ حکمت عملی پاکستان اور اس کے اتحادیوں کے لئے عالمی ساکھ کے حوالے سے مہنگی ثابت ہوئی ہے، جبکہ بھارت نے اپنی سفارتی برتری اور سچائی پر مبنی بیانیہ کے ذریعے اس جنگ میں واضح سبقت حاصل کی ہے۔
یوریشین ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، چین اور ترکی کے سرکاری میڈیا اداروں، جیسے گلوبل ٹائمز، شینھوا نیوز ایجنسی، اور ٹی آر ٹی ورلڈ نے پاکستانی فوج کے پروپیگنڈے کو بغیر کسی تصدیق کے پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہ ادارے، جو اپنے اپنے ممالک کی حکومتی پالیسیوں کے ترجمان ہیں، پاکستان کے جھوٹے دعووں کو عالمی سطح پر پھیلانے کے لئے استعمال ہوئے۔ تاہم، اس عمل میں ان کی اپنی ساکھ کو شدید دھچکا لگا ہے۔ چینی میڈیا کی ساکھ پہلے ہی عالمی سطح پر مشکوک ہے، کیونکہ یہ براہ راست چینی کمیونسٹ پارٹی کے زیر اثر کام کرتا ہے۔ دوسری جانب، ترکی کا ٹی آر ٹی ورلڈ صدر ایردوان کے سیاسی عزائم کے لئے پروپیگنڈا مشینری کے طور پر کام کر رہا ہے، جس نے اس کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھائے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، بغیر تصدیق کے جھوٹے دعووں کو پھیلانا صحافتی اقدار کا نہایت نچلا معیار ہے، جس نے ان اداروں کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچایا ہے۔
اس کے برعکس، بھارت نے اس معلوماتی جنگ میں اپنی حکمت عملی کو سچائی، شفافیت، اور سفارتی چابکدستی پر استوار رکھا ہے۔ بھارت نے نہ صرف عالمی برادری کو زمینی حقائق سے آگاہ کیا ہے بلکہ پاکستانی پروپیگنڈے کے مقابلے میں ایک مضبوط اور قابل اعتماد بیانیہ پیش کیا ہے۔ عالمی میڈیا اور آزاد تجزیہ کاروں نے بھارت کے موقف کی تائید کی ہے، کیونکہ اس نے حقائق کو مسخ کرنے کے بجائے انہیں کھل کر پیش کیا ہے۔ بھارت کی سفارتی کوششیں بھی اس تنازع میں نمایاں رہیں۔ اس نے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پر پاکستان کے جھوٹے بیانیے کو بے نقاب کیا ہے اور اپنے اتحادی ممالک، جیسے کہ امریکہ، یورپی یونین، اور جاپان کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کیا ہے۔ یہ سفارتی کامیابی بھارت کی عالمی ساکھ اور اثر و رسوخ میں اضافے کا باعث بنی ہے۔ بھارت نے نہ صرف اپنے اندرونی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اپنا بیانیہ مضبوط کیا ہے بلکہ سائبر سیکیورٹی اور معلوماتی جنگ کے جدید تقاضوں کو بھی پورا کیا ہے۔ اس نے اپنے عوام کو بھی اس جنگ میں شامل کیا ہے، جس سے قومی یکجہتی اور اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستانی پروپیگنڈے کے مقابلے میں بھارت کی یہ حکمت عملی زیادہ موثر ثابت ہوئی ہے، کیونکہ اس نے جھوٹ اور دھوکے کی بجائے حقائق پر انحصار کیا ہے۔
آج کے ڈیجیٹل دور میں، جہاں معلومات کی جنگ روایتی جنگ سے زیادہ اثر انگیز ہو سکتی ہے، بھارت نے ثابت کیا ہے کہ سچائی اور شفافیت ہی وہ ہتھیار ہیں جو طویل المدت کامیابی کی ضمانت دیتے ہیں۔ پاکستانی پروپیگنڈے کے مقابلے میں بھارت کا بیانیہ نہ صرف حقائق پر مبنی تھا بلکہ اس نے عالمی برادری کے اعتماد کو بھی جیتا ہے۔ چین اور ترکی کی جانب سے پاکستانی جھوٹ کو پھیلانے کی کوششوں نے ان ممالک کی اپنی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے، جبکہ بھارت نے اپنی سفارتی اور اخلاقی برتری کو برقرار رکھا ہے۔ یہ تنازع واضح کرتا ہے کہ معلوماتی جنگ میں کامیابی کا دارومدار نہ صرف طاقت بلکہ سچائی اور عالمی اعتماد پر ہوتا ہے۔ بھارت نے اس میدان میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے عالمی سطح پر اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا یہ تسلیم کر رہی ہے کہ سچائی پر مبنی انفارمیشن وار میں بھی بھارت نے زبردست سفارتی فتح حاصل کی ہے۔