تاثیر 10 مئی ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی، جو 7 مئی 2025 کو بھارتی میزائل حملوں ’’آپریشن سندور‘‘سے شروع ہوئی اور 10 مئی کی صبح پاکستانی جوابی کارروائی ’’بنیان المرصوص‘‘ کے ساتھ شدت اختیار کر گئی، نے جنوبی ایشیا کے دو جوہری ممالک کو ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا تھا۔ تاہم، امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ذاتی کوششوں کی بدولت دونوں ممالک جنگ بندی کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔ یہ پیش رفت نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن کے لئے ایک اہم موڑ ہے، جو سفارتی کوششوں اور عالمی دباؤ کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔یہ تنازع، جو مقبوضہ کشمیر کے پہلگام میں ہونے والے حملے سے جنم لے کر عسکری اور سفارتی محاذوں پر پھیل گیا، دونوں ممالک کے تعلقات کی نزاکت کو واضح کرتا ہے۔ بھارت، جو خطے کی ایک بڑی معاشی اور عسکری طاقت ہے، نے اپنی قومی سلامتی اور خودمختاری کو اولین ترجیح دی۔ اس نے پاکستان کے الزامات کا کوئی باضابطہ جواب نہ دے کر سفارتی تحمل کا مظاہرہ کیا، لیکن اس کی خاموشی کو کمزوری سمجھنا درست نہیں تھا۔ بھارت نے اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے اور عالمی برادری میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے پر توجہ مرکوز رکھی۔ اس تناظر میں، امریکی کردار بھارت کے لیے کلیدی اہمیت کا حامل رہا، کیونکہ وہ ایک ایسی ثالثی کی توقع رکھتا تھا ،جو اس کے مفادات کا تحفظ کرے، جبکہ اپنی خودمختاری پر کسی مداخلت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اس بحران کے دوران ابتدائی طور پر غیر جانبدار رویہ اختیار کیا تھا۔ ان کے بیانات، جن میں انہوں نے دونوں ممالک سے’’رک جانے ‘‘ کی اپیل کی، ایک کمزور سفارتی نقطہ نظر کی عکاسی کرتے تھے۔ نائب صدر جے ڈی وینس کے اس بیان نے کہ ’’امریکہ نہ بھارت کو ہتھیار ڈالنے کے لیے کہہ سکتا ہے اور نہ ہی پاکستان کو‘‘، ٹرمپ انتظامیہ کی حقیقت پسندانہ پالیسی کی طرف اشارہ کیا۔ تاہم، ٹرمپ کی تازہ ترین پہل نے اس تاثر کو بدل دیا ہے۔ ان کی براہ راست مداخلت اور دونوں ممالک کے رہنماؤں سے رابطوں نے جنگ بندی کے معاہدے کی راہ ہموار کی۔ یہ پیش رفت امریکی سیکریٹری خارجہ مارک روبیو کے بھارت اور پاکستان کے رہنماؤں سے رابطوں اور دوطرفہ بات چیت پر زور دینے کے بعد ممکن ہوئی، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ امریکہ مکمل طور پر غیر فعال نہیں تھا۔بھارت کی خارجہ پالیسی ہمیشہ سے اس بات پر زور دیتی رہی ہے کہ کشمیر سمیت اس کے داخلی معاملات میں کسی تیسرے فریق کی ثالثی کی ضرورت نہیں۔ تاہم، ٹرمپ کی ثالثی کو قبول کرنا بھارت کی سفارتی لچک کو ظاہر کرتا ہے، جو اس کے اسٹریٹجک مفادات اور عالمی شراکت داریوں کے تحفظ کے لیے اہم ہے۔ دوسری جانب، پاکستان نے بھی جنگ بندی کے لیے آمادگی ظاہر کر کے خطے میں استحکام کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ عسکری تصادم کے بجائے سفارتی مذاکرات کے ذریعے اپنے مسائل حل کریں۔
عالمی تناظر میں، ٹرمپ انتظامیہ کو متعدد عالمی بحرانوں اور داخلی مسائل کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے اس کا ابتدائی ردعمل محدود تھا۔ لیکن ان کی حالیہ کوششوں نے ثابت کیا کہ امریکہ اب بھی عالمی امن کے لیے اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ بھارت کے لیے یہ جنگ بندی اس کی عسکری برتری اور سفارتی اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے، جبکہ پاکستان کے لیے یہ خطے میں استحکام اور اقتصادی بحالی کی راہ کھولتی ہے۔ روس، برطانیہ، اور ایران جیسے ممالک کی ثالثی کی پیشکشیں بھی اہم تھیں، لیکن امریکی کردار کو اس کی عالمی اثر و رسوخ اور بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے اسٹریٹجک تعلقات کی وجہ سے سب سے زیادہ وزن حاصل رہا۔
اس جنگ بندی سے خطے میں امن کی نئی صبح طلوع ہوئی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوطرفہ مذاکرات کو آگے بڑھائیں اور مستقل امن کے لیے مشترکہ کوششیں کریں۔ بھارت، اپنی عسکری صلاحیتوں اور سفارتی پوزیشن پر بھروسہ رکھتے ہوئے، عالمی سطح پر ایک مضبوط اور خودمختار ملک کے طور پر ابھر سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے بھی یہ ایک موقع ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کو واضح کرے اور خطے میں تعاون کی نئی راہیں تلاش کرے۔ ٹرمپ کی اس کامیا ب ثالثی نے نہ صرف جنوبی ایشیا میں جنگ کے بادل چھانٹے ہیں، بلکہ عالمی سفارت کاری کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے۔