تاثیر 18 جون ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
مشرق وسطیٰ کے موجودہ تنازعے میں ایران اور اسرائیل کے مابین جاری جنگ نے عالمی سیاست کے منظر نامے کو ایک نئے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ اسرائیل، جو اپنی فوجی طاقت اور امریکی پشت پناہی پر ہمیشہ سے نازاں رہا ہے، اب خود کو ایک ایسی دلدل میں پھنستا ہوا دیکھ رہا ہے، جہاں اس کے ایئر ڈیفنس سسٹمز کی کمزوریاں کھل کر سامنے آ رہی ہیں۔ وال اسٹریٹ جرنل کی حالیہ رپورٹ نے اسرائیل کی اس کمزوری کو اجاگر کیا ہے کہ اس کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل انٹرسیپٹرز کی سپلائی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ یہ صورتحال اس وقت مزید سنگین ہو جاتی ہے جب ایران کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر بالسٹک میزائلوں کے ذریعے اسرائیل پر حملے جاری ہیں، جو اسرائیل کے ایئر ڈیفنس سسٹمز پر شدید دباؤ ڈال رہے ہیں۔
اسرائیل نے اپنے حالیہ آپریشن ’’رائزنگ لائن‘‘ کے ذریعے ایران کے فوجی اور جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس نے یہ بھی پروپیگنڈا کیا تھا کہ اس نے ایران کے ایک تہائی میزائل لانچرز کو تباہ کر دیا گیا ہے اور ایرانی فضائی حدود پر برتری حاصل کر لی گئی ہے۔ مگر خفیہ ذرائع کی جانب سے یہ واضح اشارے مل رہے ہیں کہ ایران کا میزائل ذخیرہ اب بھی نصف سے زیادہ برقرار ہے، جس کا ایک بڑا حصہ زیر زمین سرنگوں میں محفوظ ہے۔ یہ ایران کی فوجی حکمت عملی کی مضبوطی اور دور اندیشی کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے وسائل کو دشمن کی پہنچ سے دور رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ ایران کی یہ صلاحیت نہ صرف اس کے دفاعی ڈھانچے کی مضبوطی کو عیاں کرتی ہے بلکہ اسرائیل کے دعوؤں کی کھوکھلی حقیقت کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔
اسرائیل کا ایئر ڈیفنس سسٹم، جو آئرن ڈوم، ڈیوڈ سلنگ، ایرو سسٹم اور امریکی فراہم کردہ پیٹریاٹ اور تھڈ بیٹریوں پر مشتمل ہے، مالی اور تکنیکی دباؤ کا شکار ہے۔ اسرائیلی اخبار ’’دی مارکر‘‘ کے مطابق، رات بھر کے میزائل دفاعی آپریشنز کی لاگت ایک ارب شیکل (تقریباً 285 ملین ڈالر) تک جا پہنچتی ہے۔ ایرو سسٹم کے ایک انٹرسیپٹر کی قیمت ہی تین ملین ڈالر ہے، جو اسرائیل کے لئے ایک بھاری مالی بوجھ ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق، امریکی مدد یا براہ راست مداخلت کے بغیر اسرائیل اپنے ایئر ڈیفنس سسٹمز کو صرف 10 سے 12 دن تک ہی فعال رکھ سکتا ہے۔ یہ صورتحال اسرائیل کی دفاعی حکمت عملی کی کمزوریوں کو واضح کر دیتی ہے، جہاں اسے جلد ہی یہ فیصلہ کرنا پڑ سکتا ہے کہ کون سے میزائلوں کو روکنا ہے اور کون سے چھوڑ دینا ہے۔
دوسری جانب، ایران نے اپنی دفاعی اور جارحانہ صلاحیتوں کو نہ صرف برقرار رکھا ہے بلکہ اسے مزید مؤثر بنایا ہے۔ 13 جون سے شروع ہونے والے اس تنازعے میں ایران نے اسرائیل پر تقریباً 400 بالسٹک میزائل داغے ہیں، جو اس کے 2000 میزائلوں کے ذخیرے کا ایک حصہ ہیں۔ یہ حملے نہ صرف اسرائیل کے بڑے شہروں جیسے تل ابیب اور یروشلم کو نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ اسرائیلی معیشت اور عوام کے حوصلوں کو بھی کمزور کر رہے ہیں۔ ایران کی یہ حکمت عملی کہ وہ اپنے حملوں کو مسلسل اور منظم رکھے ہوا ہے، اسرائیل کے لئے ایک ناقابل برداشت دباؤ بن چکی ہے۔
اس تنازعے میں بھارت کا کردار بھی اہم ہے، جو اپنی غیر جانبدارانہ پالیسی پر قائم ہے۔ بھارت نے واضح کیا ہے کہ وہ اس تنازعے میں کسی ایک فریق کی حمایت نہیں کرے گا، کیونکہ ایران اور اسرائیل دونوں اس کے اتحادی ہیں۔ کارگل جنگ کے دوران اسرائیل کی طرف سے بھارت کو دی گئی فوجی امداد کا ذکر کرکے اسرائیل بھارت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے، مگر بھارت کی موجودہ جغرافیائی سیاسی حکمت عملی اسے کسی بھی فریق کے ساتھ کھل کر کھڑے ہونے سے روکتی ہے۔ اگر بھارت اسرائیل کی حمایت کرتا ہے تو اس کے ایران اور خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہو سکتے ہیں، جو اس کی معاشی اور توانائی کی ضروریات کے لئے اہم ہیں۔
اس جنگ میں ایران کی استقامت اور اس کی فوجی صلاحیتوں کی مضبوطی عالمی سطح پر ایک پیغام ہے کہ وہ نہ صرف اپنے دفاع کے لیے تیار ہے بلکہ اپنے دشمنوں کو منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ اسرائیل، جو اپنی فوجی برتری کے دعوؤں پر اتراتا رہا ہے، اب خود کو ایک ایسی جنگ میں پھنسا ہوا محسوس کر رہاہے، جہاں اس کی دفاعی کمزوریاں کھل کر سامنے آ رہی ہیں۔ ایران کا عزم اور اس کی حکمت عملی اس تنازعے میں اسے ایک مضبوط مقام عطا کر رہی ہے، جبکہ اسرائیل کی مشکلات اس کے لئے ایک سبق ہیں کہ طاقت کا غرور ہمیشہ عارضی ہوتا ہے جبکہ بظاہر کمزور نظر آنے والے حق کا حامی خدا ہوتا ہے۔
*************