تاثیر 3 جولائی ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
ریاست بہار کی حکومت نے ایک ایسا قدم اٹھایا ہے، جو ریاست کے لاکھوں نوجوانوں کے لئے امید کی نئی کرن بن سکتا ہے۔ وزیراعلیٰ نتیش کمار کی قیادت میں کابینہ نے اپنی ایک حالیہ میٹنگ میں ’’وزیراعلیٰ پرتشٹھایوجنا‘‘کے تحت ایک لاکھ نوجوانوں کو انٹرن شپ فراہم کرنے کے منصوبے کو منظوری دی ہے۔اس منصوبےکا دائرہ کار 2025-26 سے لے کر 2030-31 تک کے پانچ سالوں پر محیط ہوگا۔ اس منصوبے کے تحت نوجوانوں کو ریاست کے مختلف اداروں میں عملی تربیت دی جائے گی اور ہر مہینے انھیں چھ ہزار روپے بطور اعزازیہ دیے جائیں گے۔ اس فیصلے پر مجموعی طور پر 685 کروڑ 76 لاکھ روپے خرچ کیے جائیں گے۔ مانا جا رہا ہےیہ قدم صرف ایک سرکاری اسکیم نہیں بلکہ ریاستی حکومت کے وژن کی عکاسی ہے، جو نوجوانوں کو ہنرمند بنا کر انہیں روزگار کے قابل بنانے کے نظریے پر مبنی ہے۔ بہار کی تعلیمی اور اقتصادی ساخت کو دیکھتے ہوئے، یہ پہل وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ ریاست میں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں طلبہ بارہویں اور گریجویشن کی تعلیم مکمل کرتے ہیں، مگر عملی تربیت کی کمی کے باعث وہ مارکیٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہو پاتے۔ اس اسکیم سے یہ خلا پُر کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
انٹرن شپ کے لیے جن اداروں کو منتخب کیا جائے گا، ان میں آئی ٹی آئی، پولی ٹیکنک، اور دیگر فنی و تکنیکی تعلیمی ادارے شامل ہوں گے، جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حکومت صرف کاغذی اعلانات نہیں، بلکہ نوجوانوں کو عملی میدان میں تیار کرنے کے لیے سنجیدہ حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ اس سے نوجوانوں کو ادارہ جاتی ماحول میں کام کرنے، نظم و ضبط اور ٹیکنیکل مہارت سیکھنے کا موقع ملے گا جو مستقبل میں ان کے لئے روزگار کے دروازے کھول سکتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بہار کا نوجوان طبقہ محنتی، باصلاحیت اور جوش و جذبے سے بھرپور ہے، مگر وسائل کی کمی، رہنمائی کی عدم دستیابی اور روزگار کے مواقع کی قلت نے اس کی توانائی کو جمود کا شکار بنا دیا ہے۔ ’’وزیراعلیٰ پرتشٹھایوجنا‘‘ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی جانب ایک مضبوط قدم ہو سکتی ہے، بشرطیکہ اسے دیانتداری اور مستعدی سے نافذ کیا جائے۔
تاہم یہ بھی سچ ہے کہ اس طرح کے منصوبے اکثر نوکر شاہی کی سست روی، غیر شفاف طریقہ کار اور نچلی سطح پر بدانتظامی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ بہار جیسے صوبے میں جہاں فائلوں کی رفتار اور عہدیداروں کی سنجیدگی ہمیشہ مشکوک رہی ہے، وہاں اس اسکیم کے مستقبل پر سوالیہ نشان بھی کھڑے ہوسکتے ہیں۔ اگر حکومت واقعی چاہتی ہے کہ اس انقلابی اسکیم کا فائدہ ان مستحق نوجوانوں تک پہنچے، جن کے لئے یہ بنائی گئی ہے، تو اسے مانیٹرنگ کے ایک مضبوط نظام کے ساتھ ساتھ ضلعی اور مقامی سطح پر بااختیار کمیٹیاں بھی تشکیل دینی ہوں گی، جو عمل درآمد کی نگرانی کریں اور شکایات کے ازالے کا تیز تر نظام فراہم کریں۔
حکومت کے حالیہ فیصلوں میں صرف نوجوان ہی نہیں، بلکہ دیگر طبقات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ مثلاً ماں سیتا کے جنم استھل کے احیاء و ترقی کے لیے 882 کروڑ روپے کی منظوری اور ریاست کے فنکاروں کے لئے ماہانہ تین ہزار روپے کی پینشن جیسے اعلانات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت کا وژن یکطرفہ نہیں بلکہ ہمہ جہت ترقی پر مرکوز ہے۔ ثقافتی ورثے، فنونِ لطیفہ اور عقائد کی نمائندہ علامتوں کی بحالی سے نہ صرف ریاست کا تاریخی رشتہ مستحکم ہوگا بلکہ سیاحت اور مقامی معیشت کو بھی فروغ ملے گا۔
’’وزیراعلیٰ پرتشٹھایوجنا‘‘ کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ اس کا جائزہ وقتاً فوقتاً لیا جائے، اور نتائج کی روشنی میں اسے بہتر بنایا جائے۔ اگر نوجوانوں کو انٹرن شپ کے بعد مستقل ملازمت یا آگے بڑھنے کے مواقع فراہم نہ کیے گئے تو یہ اسکیم صرف ایک وقتی مالی امداد تک محدود رہ جائے گی، جس کا نتیجہ مایوسی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ حکومت کو اس پہلو پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ تربیت یافتہ نوجوان آگے کہاں جائیں گے؟ ان کی مہارتوں کا بہتر استعمال کیسے ہوگا؟ اور انہیں مارکیٹ سے کیسے جوڑا جائے گا؟
بہر حال اس منصوبے پر اگر خوبصورتی کے ساتھ عملدرآمد ہو تو نتیش حکومت کا یہ قدم بہار کے ترقیاتی سفر میں ایک روشن سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ضرورت ہے کہ اس منصوبے کےہر مرحلے میں سنجیدگی، شفافیت اور نگرانی برقرار رکھا جائے۔ نوجوانوں کو بااختیار بنانا دراصل ایک ریاست کو مضبوط بنانے کے مترادف ہے اور بلا شبہ حکومت بہار نے اس سمت میں ایک قابلِ قدر پہل کی ہے۔ اس پہل کو بہتر ڈھنگ سے آگے بڑھانے اور بہار کے لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوانوں میں اعتماد کی طاقت بڑھانے کی ضرورت ہے۔
**************************