پٹنہ قتل کیس: پولس کی کارکردگی پر سوال

تاثیر 6 جولائی ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

بہار کی راجدھانی پٹنہ، جو اپنی تاریخی اہمیت اور گنگا کے کنارے واقع خوبصورتی کے لئے مشہور ہے، ایک بار پھر ایک دل دہلا دینے والے واقعے کی وجہ سے خبروں میں ہے۔ جمعہ کی رات گاندھی میدان کے پوش علاقے میں شہر کے معروف تاجر اور بی جے پی لیڈر گوپال کھیمکا کی گولی مار کر کی گئی ہلاکت نے نہ صرف کاروباری برادری بلکہ پورے بہار میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔ یہ واقعہ کوئی معمولی جرم نہیں، بلکہ ریاست میں قانون و امان کی صورتحال پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پولیس کے مطابق، گوپال کھیمکا جب اپنی گاڑی سے اتر کر اپارٹمنٹ میں داخل ہونے والے تھے،  تب ہی ایک ہیلمٹ پہنے ہوئے حملہ آور نے صرف چھ سیکنڈ میں ان کے سر میں گولی مار کر فرار ہو گیا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں یہ لرزہ خیز منظر قید ہوا،  جو اب سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔ اس واردات کو لے کرعوام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔
اس واقعے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے بہار پولیس نے فوری طور پر ایک خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی ہے، جس کی قیادت سٹی ایس پی (سینٹرل) آئی پی ایس دیشا کر رہی ہیں۔ ڈی جی پی ونئے کمار نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس نے دس منٹ کے اندر واقعے کی جگہ پر پہنچ کر تفتیش شروع کر دی تھی۔ تکنیکی و سائنسی شواہد کی بنیاد پر کچھ اہم سراغ بھی ملے ہیں۔ تاہم، 36 گھنٹوں سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود مرکزی ملزم کی گرفتاری نہ ہونا پولیس کی کارکردگی پر سوالات اٹھا رہا ہے۔ مقامی لوگوں اور گوپال کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ پولیس ایک گھنٹے کی تاخیر سے جائے وقوع پر پہنچی، جو کہ گاندھی میدان تھانے سے محض چند میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ الزامات نہ صرف پولیس کی سست روی کی طرف اشارہ کرتے ہیں بلکہ بہار میں قانون و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو بھی عیاں کرتے ہیں۔
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، جس نے گوپال کھیمکا کے خاندان کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ 2018 میں ان کے بڑے بیٹے گنجن کھیمکا کی بھی حاجی پور کے صنعتی علاقے میں اسی طرح گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس وقت گرفتار ایک ملزم، مستو سنگھ، کو بعد میں ضمانت پر رہائی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ، چند ماہ قبل گوپال کے چھوٹے بیٹے پر بھی حملہ ہوا تھا،  لیکن وہ خوش قسمتی سے بچ گئے۔ یہ تسلسل ظاہر کرتا ہے کہ یہ خاندان کسی گہری رنجش یا منظم جرائم کا شکار ہے۔ پولیس کو شبہ ہے کہ اس قتل کی سازش بیور جیل میں تیار کی گئی تھی، جہاں سے پولیس نے تین موبائل فون، ایک ڈیٹا کیبل اور دیگر اشیا برآمد کی ہیں۔ جیل میں قید اجے ورما سے بھی پوچھ گچھ کی گئی ہے، جو زمینی تنازع سے منسلک ہو سکتا ہے۔
اس واقعے نے بہار کی سیاست کو بھی گرم کر دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں، خصوصاً آر جے ڈی، نے اسے ’’جنگل راج‘‘ کا ثبوت قرار دیتے ہوئے نتیش کمار حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ دوسری طرف، جے ڈی یو کے ترجمان نیرج کمار اور ڈپٹی سی ایم سمراٹ چودھری نے یقین دلایا ہے کہ ملزمان کو جلد گرفتار کر کے سخت سزا دی جائے گی۔ سمراٹ چودھری نے تو یہاں تک کہا کہ ’’ملزم چاہے کتنا ہی طاقتور ہو، اسے گھر میں گھس کر مارا جائے گا۔‘‘  لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسا بڑ بولا پن اس وقت تک کھوکھلا ہے، جب تک ملزمان قانون کے شکنجے میں نہ آئیں۔
سی سی ٹی وی فوٹیج اور موبائل لوکیشن کی مدد سے پولیس نے ایک حملہ آور کی شناخت کر لی ہے، اور حاجی پور سے سونپور تک 100 سے زائد کیمروں کی فوٹیج کی جانچ کی جا رہی ہے۔ واقعے کی جگہ سے دو خالی کارتوس اور ایک گولی بھی برآمد ہوئی ہے، جن کی بیلسٹک جانچ جاری ہے۔ ڈی جی پی نے 2018 کے قتل کے معاملے کو بھی دوبارہ کھولنے کی بات کی ہے، جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ دونوں واقعات کے درمیان کوئی گہرا ربط ہو سکتا ہے۔
یہ واقعہ نہ صرف ایک خاندان کی ذاتی تباہی کی کہانی ہے بلکہ بہار میں بڑھتی ہوئی جرائم کی شرح اور پولیس کی ناکامیوں کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ گوپال کھیمکا ایک معروف تاجر اور سماجی کارکن تھے، جن کا ایگزیبیشن روڈ پر پیٹرول پمپ اور حاجی پور میں فیکٹری تھی۔ ان کے قتل نے کاروباری برادری میں خوف پیدا کر دیا ہے، جو اب سرمایہ کاری اور سیکورٹی کے حوالے سے فکر مند ہے۔ عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لئے پولیس کو نہ صرف ملزمان کو جلد گرفتار کرنا ہوگا، بلکہ اس منظم جرم کے پیچھے کے اصل محرکات کو بھی بے نقاب کرنا ہوگا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو یہ واقعہ بہار کی قانون و امان کی صورتحال پر ایک داغ کے طور پر لوگوں کو ہمیشہ یاد ر ہ جائے گا۔
************