موٹے مردوں کو قبل از وقت موت کا خطرہ

موٹاپے اور موت کے درمیان تعلق کے بارے میں ہونے والی سب سے بڑی تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ زیادہ وزن یا موٹاپے کا شکار مردوں کو عورتوں کے مقابلے میں قبل از وقت موت کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ غیرواضح ہے، البتہ دوسری تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ موٹے مرد ذیابیطس اور جگر میں خطرناک چربی بڑھ جانے کے مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔

سائنس دانوں کے مطابق شمالی امریکہ اور یورپ میں تمباکو نوشی کے بعد موٹاپا موت کی دوسری بڑی وجہ ہے۔

ہ تحقیق برطانوی طبی جریدے لانسٹ میں شائع ہوئی ہے۔

سائنس دانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے دنیا بھر میں ہونے والی 189 تحقیقات کو اکٹھا کر کے ان کا جائزہ لیا۔ ان تحقیقات میں تقریباً 40 لاکھ لوگوں نے حصہ لیا تھا۔

انھوں نے ایسے لوگوں پر توجہ مرکوز کی جنھوں نے کبھی تمباکو نوشی نہیں کی تھی اور نہ ہی انھیں کوئی طویل مدت بیماریاں تھیں۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ایسے لوگوں کو تحقیق میں شامل نہ کیا جائے جن کا وزن کثرتِ تمباکو نوشی سے گر رہا ہو یا انھیں دوسرے سنگین طبی مسائل کا سامنا ہو۔

سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ مجموعی طور پر موٹاپے سے مرنے کا امکان بڑھ گیا، اور مردوں میں موت اور موٹاپے کے درمیان زیادہ مضبوط تعلق دیکھنے میں آیا۔

انھوں نے بتایا کہ شمالی امریکہ میں موٹے لیکن باقی ہر اعتبار سے صحت مند مردوں میں 70 برس کی عمر سے پہلے مرنے کا خطرہ 29 فیصد ہوتا ہے، حالانکہ کہ عام وزن والے مردوں میں یہ خطرہ صرف 19 فیصد ہوتا ہے۔

تحقیق کے مطابق شمالی امریکہ میں صحت مند وزن والی عورتوں کے اسی عمر سے پہلے مرنے کا خطرہ 11 فیصد، جبکہ موٹاپے کا شکار خواتین میں یہ خطرہ 14.6 فیصد ہوتا ہے۔

تحقیق میں شامل سائنس دان پروفیسر رچرڈ پیٹو کہتے ہیں: ’یورپ اور امریکہ میں ایک چوتھائی قبل از وقت اموات تمباکو نوشی کے باعث ہوتی ہیں، اور ایسے لوگ تمباکو چھوڑ کر یہ خطرہ آدھا کر سکتے ہیں۔

’تاہم اب موٹاپا یورپ میں ہر سات میں سے ایک، جبکہ شمالی امریکہ میں ہر پانچ میں سے ایک قبل از وقت موت کا سبب بن رہا ہے۔‘

تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کم وزن لوگوں میں بھی قبل از وقت موت کا خطرہ عام وزن والوں سے زیادہ ہوتا ہے۔

تاہم اس تحقیق کے نتائج کی مدد سے لوگوں کے لیے کسی قسم کی ہدایات مرتب کرنا مشکل ہے، کیوں کہ اس تحقیق سے تمباکو نوشوں اور امراض کا شکار افراد کو نکال دیا گیا تھا، حالانکہ یہ لوگ بھی معاشرے میں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔