پاکستان کو گزشتہ کرکٹ کے علاوہ کسی بھی کھیل سے اچھی خبر سننے کو نہیں ملی

لاہور، یکم جنوری (یو این آئی ) پاکستان میں کھیلوں کے حوالے سے بات کی جائے تو سال گزشتہ میں سوائے کرکٹ کے کسی بھی کھیل سے پاکستان کو اچھی خبر سننے کو نہیں ملی اور تمام ہی کھیل مزید زوال کا شکا نظر آئے ۔ ہاکی کے میدان میں 2017 میں بھی پاکستانی ٹیم کی ناکامیوں کا سلسلہ نہ تھم سکا اور پاکستان کو آسٹریلیا اور روایتی حریف ہندستان کے ہاتھوں بدترین شکستوں کا منہ دیکھنا پڑا۔پاکستان نے سال 2017 میں 42 میچ کھیلے جن میں سے 24 میچوں میں اسے شکست ہوئی، 12میں کامیابی ملی جبکہ 6 میچ ڈرا ہوئے ۔ پاکستانی ٹیم نے رواں برس 5 ٹورنامنٹ اور چمپئن شپ میں شرکت کی جن میں ایشینز چمپئنز ٹرافی میں دوسری، ایشیا کپ میں تیسری، اذلان شاہ میں پانچویں، ورلڈ لیگ میں ساتویں جبکہ آسٹریلیا میں چار ملکی ایونٹ میں سب سے آخری پوزیشن ہاتھ آئی۔ دوطرفہ سیریز میں صورتحال اور بھی مایوس کن رہی اور پاکستان کو تینوں سیریز میں شکستوں کا منہ دیکھنا پڑا۔آسٹریلیا کے خلاف پاکستان نے 6 میچ کھیلے جن میں آسٹریلیا نے 29 گول کیے جبکہ پاکستان ٹیم صرف 6 گول کرسکی، روایتی حریف ہندستان کے خلاف بھی 6 میچ کھیلے جن میں ہندستان نے 28گول کیے جبکہ پاکستان ٹیم صرف 6گول ہی کرسکی۔ ان تمام تر شکستوں کے باجود پاکستان ٹیم ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرنے میں کامیاب ہوگئی اور اس کی بڑی وجہ ورلڈ کپ میں 12 سے 16 ٹیمیں شامل کرنا بنی اور پاکستان نے اپنی کارکردگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ دوسری ٹیموں کی جانب سے جگہ خالی کیے جانے کے نتیجے میں ایونٹ کیلئے کوالیفائی کیا۔ ہندستان اور آسٹریلیا کے ساتھ ساتھ پاکستان ، جاپان و آئرلینڈ جیسی کمزور ٹیموں کے خلاف بھی کامیابی حاصل نہ کرسکے ۔پاکستان نے ٹیم کی تقدیر بدلنے کیلئے حنیف خان اور خواجہ جنید کو ان کے عہدے سے ہٹاتے ہوئے فرحت خان کو ہیڈ کوچ بنایا لیکن دو غیر ملکی دوروں کی انتہائی مایوس کن کارکردگی کے بعد انھوں نے بھی استعفیٰ دینے میں ہی عافیت سمجھی۔ رواں برس پاکستان ہاکی فیڈریشن کا سب سے اچھا اقدام کھلاڑیوں کو ان کے واجبات کی ادائیگی تھی، گزشتہ فیڈریشنز نے ڈیلی الا¶نس کی رقم کھلاڑیوں کو نہیں دی تھی لیکن موجودہ فیڈریشن نے وہ تمام واجبات ادا کر دیے البتہ سال کے آخر میں کچھ کھلاڑی ایشیا کپ اور دورہ آسٹریلیا کے ڈیلی الا¶نس نہ ملنے کا شکوہ کرتے نظر آئے ۔ 2018 میں پاکستان ہاکی ٹیم کو کامن ویلتھ گیمز، ایشین گیمز اور ورلڈ کپ جیسے بڑے ایونٹس میں شرکت کرنی ہے اور تاہم ٹیم کی موجودہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے کسی معجزے کی توقع نہیں۔ لیکن ہاکی کی طرح اسکوائش میں بھی ناکامیوں کا سلسلہ جاری و ساری رہا۔ ایک دور تھا کہ اسکوائش میں پاکستان کا طوطی بولتا تھا لیکن اب اس کھیل میں پاکستان کا نام لینے والا کوئی نہیں۔ اس سال ورلڈ ٹیم سکواش چمپئن شپ میں پاکستان نے 24 ٹیموں میں 19ویں پوزیشن حاصل کی۔ ان تمام تر ناکامیوں کے باوجود سب سے بری خبر فٹبال کے میدان سے سامنے آئی اور فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفا نے پاکستان فٹ بال فیڈریشن کی رکنیت معطل کر دی۔ ان تینوں کھیلوں کے برعکس اسنوکر میں پاکستانی کھلاڑیوں نے اس سال ایک بار پھر متاثرکن کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور محمد آصف اور بابر محمد سجاد نے کرغزستان میں ایشین 6 ریڈ بال چمپئن شپ جیتی جبکہ نسیم اختر 18 سال سے کم عمر کھلاڑیوں کی عالمی چمپئن شپ جیتنے میں کامیاب ہوئے ۔ اسنوکر کے ہی حمزہ اکبر نے ایشین ٹائٹل جیتنے کے بعد پروفیشنل سرکٹ میں قسمت آزمائی بڑی امیدوں کے ساتھ شروع کی تھی لیکن مالی مشکلات کے سبب وہ ابھی تک اپنی منزل سے دور دکھائی دیتے ہیں۔ باکسنگ رنگ سے محمد وسیم کی جیت کی خبریں آتی رہیں لیکن وہ اپنوں کی جانب سے کیے گئے پرکشش وعدے پورے نہ کیے جانے پر خاصے برہم دکھائی دیے ۔ اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ باکسنگ حکام کی بے رخی کے سبب ملک کا یہ نوجوان جلد ہی ہمت ہار کر کسی اور ملک کی شہریت لینے پر مجبور ہو جائے گا۔ یہی حال پہلوان انعام بٹ کا بھی ہے جنہوں نے اس سال ورلڈ بیچ ریسلنگ چمپئن شپ میں ایرانی پہلوان کو زیر کرکے طلائی تمغہ جیتا اور دیگر بین الاقوامی مقابلوں میں بھی کامیابیاں حاصل کیں لیکن وہ بھی سرکاری سرپرستی اور ٹریننگ کی ضروری سہولت میسر نہ ہونے کے شاکی ہیں۔