پردہ اٹھنا ابھی باقی ہے

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 27th Jan.

بہار کی سیاست میں گردش کر رہے ایک سوال کا رخ جے ڈی یو پارلیمانی بورڈ کے صدر اپیندر کشواہا نے یہ کہہ کر موڑ دیا ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ نتیش کمارکو کمزور ہونے دینا نہیں چاہتے ہیں، جبکہ انھیں کمزور کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔جمعہ کو منعقدایک پریس کانفرنس میں کی گئی اس وضاحت سے قبل جے ڈی یو میں اپیندر کے مستقبل کے سلسلے میں طرح طرح کی باتیں ریاست کی سیاسی گلیاروں سے لیکر چوک چوراہوں تک ہو رہی تھیں۔کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ پارٹیم میں اپنی حصہ داری کی مانگ کو اٹھا کر اوپیندر کشواہا اپنے ہی جال میں پھنس گئے ہیں۔کچھ لوگ یہ کہنے لگے تھے کہ ان کی حالت بھی جارج فرناڈیز ، شرد یادو اور آر سی پی سنگھ جیسی ہونے والی ہے۔
اوپیندر کشواہا کے ذریعہ حصہ مانگے جانے کے سوال پر پارٹی کے اندر اور باہر ایک نئی بحث کا شروع ہونا فطری تھا۔سوال یہ بھی اپنی جگہ درست تھا کہ کیا وہ اس بار نتیش کمار کو چیلنج کریں گے، پارٹی کے اندر انقلاب لائیں یا خود انہیں جے ڈی یوچھوڑنا پڑ جائے گا؟ یعنی اپیندر کشواہا کے حوالے سے روز نئی نئی قیا س آرائیاں ہونے لگی تھیں۔ حالانکہ قیاس آرائیوں کا سلسلہ اب رک جائے گا، یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔کیوں کہ نتیش کمار کا یہ خیال کہ کسی بھی طرح کا کوئی مسئلہ ہو تو اپیندر کشواہا کو سوشل میڈیا کے ذریعہ کچھ کہنے کے بجائے آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرنی چاہئے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ کشواہا نتیش سے اب بھی پوری طرح مطمئن نہیںہیں۔ وہ آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آ رہے ہیں۔گرچہ اپیندر کشواہا بھی نتیش کمار کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنا مناسب سمجھتے ہیں، جس کی وضاحت انھو ں نےپریس کانفرنس میں کی ہے۔حالانکہ میڈیا سے بات چیت سے قبل، قیاس آرائی کا بازار گرم کرنے والوں نے یہ افواہ پھیلائی تھی کہ پریس کانفرنس میں وہ کوئی بڑا دھماکہ کرنے والے ہیں۔منفی خیال والے چند سیاسی مبصرین نے تو یہ بھی پیشین گوئی کر دی تھی کہ جے ڈی یو ٹوٹ کے دہانے پر کھڑا ہے۔
یہ بات صحیح ہے کہ گزشتہ جمعرات کی رات اوپیندر کشواہا کی جانب سے میڈیا کو ایک پیغام بھیجا گیا تھا۔ پیغام کچھ اس طرح تھاکہ ’’میں میڈیا کے دوستوں سے بات کرنے کے لیے 27 جنوری ,2023 کو دوپہر 12.30 بجے اپنی پٹنہ رہائش گاہ پر دستیاب رہوں گا۔ ‘‘ یعنی کشواہا نے پہلے سے ہی اپنا ذہن بنا لیا تھا کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے وہ پہلے مرحلے کی بات چیت آمنے سامنے نہیں کریں گے۔اب جبکہ اپیندر کشواہا نے بھی یہ صاف کر دیا ہے کہ وہ آمنے سامنے بیٹھ کر گفتگو کرنے کے لئے تیار ہیں۔ایسے میں بظاہر یہ لگنے لگا ہے کہ وہ بات کو مزید نہیں طول دینا نہیں چاہتے ہیں۔وہ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ کسی کو بھی و زیر اعلیٰ نتیش کمار کے خلاف بیان بازی کرنے کی کھلی چھوٹ نہیں ملنی چاہئے۔انھوں نے پریس کانفرنس میں کوئی بھی ایسی بات نہیںکہی ہے ، جس سے کسی کو یہ لگے وہ کہتے کچھ لیکن کرنا کچھ اور چاہتے ہیں۔حالانکہ اس کے قبل اپیندر کشواہا نے اپنے حصے کی بات کرتے ہوئے یہ صاف کر دیا تھا کہ اس بار وہ آرام سے جے ڈی یو نہیں چھوڑ نے والے نہیں ہیں۔یعنی جب پارٹی چھوڑیں گے تو ہنگامہ ہوگا۔مگر چند ہی دنوں میں شاید وہ سمجھ گئے ہیںکہ ان کے اس بیان میں کوئی دم نہیں ہے۔ان کے پارٹی چھوڑنے سے کچھ نہیں ہونے والا ہے۔ٹھیک اسی طرح جیسے کچھ معاملوں میں اس سے پہلے ہوتا رہا ہے۔
ایک وقت تھا جب اوپیندر کشواہا نے اپنے اوپر لگے ایک الزام کے حوالے سے یہ کہہ دیا تھا کہ پارٹی میں جو جتنا بڑا لیڈر ہے وہ اتنا ہی زیادہ بی جے پی کے رابطے میں ہے۔ اس بیان کے حوالے سے جب وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے میڈیا کے نمائندوں نے سوال کیا تو وہ چونک گئے۔ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ اپیندر کشواہا ہی اس کا جواب دیں گے۔ یہ کہتے ہوئے نتیش کمار ہنس ٖضرور رہے تھے لیکن وہ اپنے غصے کو چھپا نہیں پا رہے تھے۔ فی الحال حالات بتا رہے ہیں کہ وزیر اعلیٰ ابھی بھی اس معاملے میں نارمل نہیں ہو پائے ہیں۔ایسے میں اب اوپیندر کشواہا کا نتیش کمار کے ساتھ آگے چل پانا آسان نہیں لگ رہا ہے۔حالانکہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ گزشتہ27 جنوری کو منعقد پریس کانفرنس میں اپیندرکشواہا کی وضاحت سے وزیر اعلیٰ مطمٔن ہو پاتے ہیںیا نہیں۔ اگرمطمٔن ہوجاتے ہیں تو سارے گلے شکوے یقیناََ رفع دفع ہو جائیں گے۔بصورت دیگر وہی ہوگا ، جس کا اندیشہ ابھی تک ظاہر کیا جا رہا ہے۔وزیر اعلیٰ نتیش کمار اوپیندر کشواہا کے حوالے پہلے ہی کہہ چکے ہیںکہ’’ جس کو رہنا ہے رہے، جس کو جانا ہے چلا جائے۔ ٹویٹر سے مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے۔روبرو بات چیت سے ہی مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔‘‘جے ڈی یو کے ریاستی صدر امیش کشواہا نےبھی صاف صاف یہ کہہ دیا ہے کہ ’’جے ڈی یو کو نتیش کمار نے سیراب کیا ہے۔‘‘ یعنی پارٹی میں کسی کا بھی کوئی حق حصہ نہیں ہے۔شاید انھی بیانات کے تناظر میں اپیندر کشواہا نے جلدی بازی میں یو ٹرن لیتے ہوئے مل بیٹھ کر گفتگو کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔مگر اپنی اس خواہش کا اظہارپریس کانفرنس میں کرنے کی انھیں ضرورت کیوں پیش آئی ، اس راز سے پردہ کا اٹھناابھی باقی ہے۔
**************************