Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 8th Jan.
یروشلم ،8جنوری:اسرائیل میں نیتن یاہو حکومت بنے ہوائے ابھی محض ایک ہفتے سے چند زائد دن گزرے ہیں، مگر جو بائیڈن انتظامیہ کے لیے درد سر شروع ہو گئی ہے۔ ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ انتہا پسند دائیں بازو کی جماعت کے سربراہ اور نیتن یاہو کی کابینہ کے ایک اہم رکن ایتمار بین گویر نے مسجد اقصیٰ میں اشتعال انگیز دراندازی کا ارتکاب کیا جس نے امریکی سفارت کاروں کو ناراض کر دیا۔خیال کیا جاتا ہے کہ یہ آنے والے دنوں میں مزید تنازعات کا سلسلہ شروع کریں گے۔ جن میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا معاملہ بھی شامل ہو گا۔ کیونکہ نیتن یاہو کی حکومت میں اس نوع کے کئی اور بھی انتہائی دائیں بازو کے لوگ موجود ہیں۔ادھر نیتن یاہو کی انتظامیہ نے اپنے تازہ ترین اقدام کے طور پر ان فلسطینیوں کو سزا دینے کے اقدامات بھی کیے ہیں جو امریکی انتظامیہ کے ساتھ براہ راست تعلقات بناتے ہیں۔ یقیناً یہ نیتن یاہو کو پسند نہیں۔مسٹر یاہو کے لیے اس تناظر میں جو بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے اس امداد کو بحال کرنے جسے ٹرمپ انتظامیہ نے بند کر دیا تھا اچھا نہیں لگتا۔ مزید یہ کہ جو بائیڈن انتظامیہ نے فلسطینی حکام کو امریکی دوروں کی بھی اجازت دی ہے۔جبکہ تل ابیب میں بننے والی نئی اسرائیلی بھی حکومت اس لیے نا خوشگواری کا پہلو رکھتی ہے کہ امریکی انتظامیہ کی سکیورٹی ٹیم مشرق وسطیٰ سیاپنی توجہ ہٹا کر اپنی توجہ چین اور روس کی طرف مبذول کرنا چاہتی ہے۔اب جبکہ ایوان نمائندگان میں ری پبلکن آئے ہیں ان کی کوشش ہے کہ2024 کے صدارتی انتخاب سے پہلے جو بائیڈن انتظامیہ کو اسرائیل کے لیے غیر دوستانہ ثابت کریں۔یہ چیزیں جوبائیڈن انتظامیہ کے لیے چیلنج بن سکتی ہیں۔ اس لیے جو بائیڈن انتظامیہ جنوری کے وسط تک اپنے قومی سلامتی کے مشیر کو اسرائیل بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ تاکہ امریکی انتظامیہ اور عرب اتحادیوں کے درمیان تناؤ کو بڑھنے سے روکیں۔امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلوان کے دورہ اسرائیل کے بعد امکانی طور پر امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن بھی جلد اسرائیل جائیں گے۔ لیکن ان کا پیغام کسی بھی طرح کے انتباہ سے بالا تر ہے۔اگرچہ یہ فلسطینیوں کے ساتھ لڑائی کو ہوا نہ دینے سے متعلق پیغام لائیں گے لیکن یہ پیغام کسی بھی انتباہ سے بالاتر ہو گا۔ امریکہ کی طرف سے یہ پیغام اسرائیل کے روس کے ساتھ معاملات میں ہم آہنگی لانے کے مضمرات سے متعلق ہو گیا۔خصوصاً جب روس جنگی حوالے سے ایران پر انحصار کر رہا ہے۔ امریکی خواہش ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں سکیورٹی کے توازن کو متاثر نہ ہونے دے۔ تاکہ ایک طرف ایران کو روکا جانا ممکن رہے تو دوسری جانب چین اور روس کا راستہ روکنے پر امریکی توجہ جاری رکھی جا سکے۔جب سے نیتن یاہو نے اپنے انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں کی مدد سے ایک گرما گرم قسم کا الیکشن لڑا ہے۔ امریکی حکام کی کوشش یہ ہے کہ درجہ حرارت کو نیچے رکھا جائے اور تصادم کی پیش گوئیوں کو کمزور ثابت کیا جائے۔اسی پس منظر میں امریکہ کی طرف سے سب سے پہلا یہ بیان آیا کہ ہم چہروں کو دیکھ کر پالیسیوں اور پریکٹس کو دیکھ کر فیصلے کریں گے۔ یہ بیان براہ راست بین گویر اور سمتریش ایسے اتحادیوں کی وجہ سے تھا۔امریکی صدر جو بائیڈن نیبھی نیتن یاہو کے حلف کے بعد اپنے خیر مقدمی بیان میں یہی کہا کہ ‘میں دہائیوں پرانے دوست نیتن یاہو کے ساتھ مل کر کام کرنے کا کا منتظر ہوں۔’ جو بائیڈن نے اس مل کر کام کرنے کی خواہش کو اس سبب قرار دیا کہ دونوں مل کر مشرق وسطیٰ میں چیلنجوں کا مقابلہ کر سکیں اور موجود مواقع کو بروئے کار لا سکیں۔امریکی صدر کی طرف سے یہ اس کے باوجود کہا گیا ہے کہ جو بائیڈن اور نیتن دونوں کئی سال سے جانتے ہیں کے دونوں کے درمیان اتنے زیادہ قریبی تعلقات نہیں ہیں۔صرف معاملہ جو بائیڈن کے ساتھ تعلقات کا نہیں سابق صدر اوباما کے ساتھ بطور ٹیم کرنے والے جو حکام اب جو بائیڈن کے ساتھ کام کر رہے ہیں وہ بھی نیتن یاہو کے بارے میں ایسی ہی رائے رکھتے ہیں۔ ان کی ناراضی کی وجہ ان کی خارجہ پالیسی کو ناکام بنانے کی کوشش تھی۔اس کے باوجود جو بائیڈن اور ان کی انتظامیہ کی طرف سے یہی اشارے دیے جا رہے ہیں کہ وہ نیتن یاہو کے ساتھ ہی مل کر کام کرے گی جبکہ یاہو کی حکومت کے انتہائی دائیں بازو کے لوگوں سے دور رہنے کی کوششش کریں گے۔یہ اس خطے میں نظیر پہلے لبنان کے حوالے سے موجود ہے کہ لبنانی حکومت کے ساتھ امریکہ مل کر کام کرتا تھا لیکن حزب اللہ کے لوگوں سے بچتا تھا جنہیں دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔ جو بہر حال ایک ملک کی سیاسی طاقت ہے۔ اس لیے امریکہ کے لیے اہم ہو گا کہ وہ اپنے قریبی اتحادی اسرائیل کے ساتھ اسی ‘اپروچ’ کو بروئے کار لائے۔اس لیے امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ ‘ہم براہ راست وزیر اعظم سے ڈیل کریں گے۔’ نیڈ پرائس اسرائیلی وزیر داخلہ بین گویر سے ممکنہ روابط کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا۔یہی وہ بین گویر ہے جس نے مسجد اقصیٰ کا منگل کے روز وزٹ کیا تھا۔ کیونکہ یہودی اسط اپنے مقدس مقام ‘ٹیمپل ماونٹ’ کی شناخت دیتے ہیں۔بین گویر مغربی کنارے کا یہودی آباد کار ہے اور نیتن یاہو کی حکومت میں انتہا پسند وزیر کے طور پر شہرت رکھتا ہے۔ وہ مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کا بھی شدید مخالف ہے۔جمعرات کے روز اقوام متحدہ میں امریکہ کے نائب سفیر رابرٹ ووڈ نے بین گویر کے مسجد اقصٰی کے دورے کے سلسلے میں بلائے گئے سلامتی کونسل کے اجلاس میں اس کے برعکس موقف اختیار کیا۔ سلامتی کونسل کا یہ اجلاس متحدہ عرب امارات اور چین نے مشترکہ طور پر بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔رابرٹ ووڈ نے بین گویر کی مذمت کی اور مسجد اقصیٰ کی پہلے سے ڈکلئیر کر دی گئی پوزیشن میں کسی بھی یکطرفہ تبدیلی کو مسترد کرنے کا اعلان کیا۔لیکن اگلے ہی جمعہ کو اسرائیلی سکیورٹی کابینہ نے فلسطینیوں کے خلاف سزا کے کئی اقدامات کا اعلان کر دیا، ان اعلانات میں مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی تعمیرات کو روکنے کے علاوہ فلسطینی فنڈز کو روکنا بھی شامل ہے۔