افغانستان سے امریکہ منتقل کی گئی مبینہ مغوی یتیم بچی بدستور فوجی اہلکار کے پاس

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 2nd Jan.

کابل،2جنوری:افغانستان سے امریکہ منتقل کی گئی ساڑھے تین سالہ یتیم بچی بدستور امریکی فورسز کے اسی اہلکار میجر جوشوا ماسٹ کے گھر میں ہے جس پر بچی کے عزیزوں نے اس کے اغوا کا الزام لگایا ہے۔اس بچی کا حقیقی خاندان افغانستان میں مارا جا چکا ہے جب کہ اس کے دیگر عزیزوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اس کی پرورش کے خواہاں ہیں۔دوسری جانب امریکی فورسز کے اہلکار میجر جوشوا ماسٹ کے خاندان کا دعویٰ ہے کہ اس بچی کو قانونی طور پر گود لیا گیا تھا۔البتہ اس کے عزیز واقارب اس بات سے انکار کر رہے ہیں۔وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرین یان پائیر نے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کو اکتوبر میں بتایا تھا کہ انتظامیہ کی یہ کوشش ہے کہ اس بچی کے مستقبل کو دیکھا جائے۔گزشتہ ماہ امریکہ کے محکمہ انصاف نے اس بچی کے سلسلے میں جاری قانونی جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس بچی کو ابتدا میں ہی اپنے خاندان سے جدا نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔محکمے نے یہ درخواست بھی دی تھی کہ اس فیصلے کو ریاست ورجینیا کی ایک مقامی عدالت سے وفاقی عدالت میں بھیجا جائے جسے مقامی جج نے مسترد کر دیا تھا۔وفاقی حکام کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں مزید تفتیش جاری ہے۔پاکستانی حکام کے مطابق اس وقت کراچی کی مختلف جیلوں میں سینکڑوں افغان شہری زیر حراست ہیں۔ ان میں زیادہ تر باشندوں کو سفری دستاویزات نہ ہونے کے جرم میں قید کیا گیا ہے۔ اس قانونی جنگ کو ایک برس کی مدت ہو چکی ہے اور اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس سلسلے میں مزید وقت لگ سکتا ہے۔ اس بچی کی عمر اس وقت ساڑھے تین برس ہے۔عدالتی دستاویزات کے مطابق جوشوا ماسٹ نے افغانستان میں 2019 کے آخر میں قیام کے دوران اس بچی کی پرورش میں دلچسپی ظاہر کرنا شروع کی تھی۔یہ بچی اس وقت محض چند ماہ کی تھی جس کے والدین اور پانچ بہن بھائی افغانستان میں ایک خصوصی فوجی کارروائی میں مارے گئے تھے۔ یہ بچی اس وقت زخمی ہو گئی تھی۔جیسے جیسے یہ بچی صحت یاب ہوتی گئی، افغان حکومت اور بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کی مدد سے اس بچی کے رشتے داروں کو تلاش کیا گیا۔اسی دوران اس کا ایک کزن اور اس کی بیوی کے بارے میں معلوم ہو سکا جنہوں نے اس بچی کی پرورش کی ذمہ داری قبول کی۔’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کی رپورٹ کے مطابق ماسٹ نے عسکری حکام کے احکامات کے باوجود اس معاملے میں مداخلت بند نہ کی اور فوج میں اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کیا۔ ٹرمپ انتظامیہ میں سیاسی روابط سے اپیل کی اور ورجینیا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں واقع عدالت کو بیرون ملک سے بچے کو گود لینے کے لیے موجود معمول کے حفاظتی اقدامات کو پس پشت ڈالنے پر قائل کیا۔ماسٹ نے، جہاں اس خاندان کے امریکہ آنے میں مدد کی، وہیں ورجینیا کی ایک مقامی عدالت میں اس بچی کے گود لینے کی درخواست بھی دائر کر دی جب کہ اس خاندان کے بقول امریکہ پہنچ کر ان سے یہ بچی لے لی گئی تھی۔ماسٹ نے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کی جانب سے بھیجے گئے سوالات کے جواب نہیں دیے۔عدالت کی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماسٹ نے دعویٰ کیا کہ وہ اس بچی کو امریکہ لانے میں درست تھے اور وہ اس کی اپنی اہلیہ کے ساتھ پرورش کر رہے ہیں۔دوسری جانب طالبان نے ایک پیغام میں کہا ہے کہ وہ اس معاملے کو امریکی حکام کے سامنے اٹھائیں گے تاکہ اس بچی کو اس کے رشتے داروں کے حوالے کیا جائے۔