Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 17th Jan.
رام چرت مانس پر پٹنہ سے دہلی تک جاری سیاسی بیان بازی تھمتی ہوئی نظر نہیں آ رہی ہے۔ بہار کے وزیر تعلیم چندر شیکھر سنگھ کے ذریعہ گزشتہ بدھ کو رام چرت مانس پر کئے گئےتبصرہ کے بعد ان کی حمایت اور مخالفت کے اٹھے طوفان کے درمیان وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اپنی خاموشی توڑی ہے۔ اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ نتیش کمار کا واضح موقف ہے۔ آج بھی ان کایہی کہنا ہے کہ ہم کسی بھی مذہب یا اس کے ماننے والوں کے درمیان کسی بھی طرح کا تنازعہ غیر مناسب مانتے ہیں۔مذہب لوگوں کی ذاتی زندگی کا معاملہ ہے۔ کون کس مذہب کو مانتا ہے اور کس طرح سے مانتا ہے، اس میں کسی کو مداخلت کا کوئی حق نہیںہے۔ ہمیں کسی کے مذہب پر اپنی رائے دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ہماری پارٹی کا بھی یہی خیال ہے کہ لوگ جس کسی مذہب کو مانتے ہیں، انہیں اس مذہب پر عمل کرنا چاہیے اور سب کو سبھی مذاہب کا احترام کرنا چاہیے۔ لوگ اپنے اپنے مذہب کو اپنے اپنے ڈھنگ سے مانتے ہیں، مانیں۔ان سب باتوں پر سوال نہیں اٹھا یا جانا چاہیے۔اس سلسلے میں ڈپٹی سی ایم تیجسوی یادو بھی اپنا غیر جانبدار نہ موقف ظاہر کر چکے ہیں۔
ایک طرف اس تنازعہ کو لیکربی جے پی کے کئی اہم لیڈروں کے ساتھ ساتھ سادھو سنت بھی وزیر تعلیم کے بیان کے خلاف میدان میں کود پڑے ہیں تو دوسری طرف آر جے ڈی قائدین جو عظیم اتحاد کا حصہ ہیں ، وہ بھی ایک دوسرے کے آمنے سامنے نظر آرہے ہیں۔ کچھ لوگ وزیر تعلیم چندر شیکھر سنگھ کے بیان سے اتفاق کر رہے ہیں تو کچھ اختلاف۔ آر جے ڈی کے ریاستی صدر جگدانند سنگھ کی جانب سے چندر شیکھر سنگھ کی حمایت کے بعد پارٹی کے قومی نائب صدر شیوانند تیواری نے کھلے عام اپنے اختلاف کا اظہار کیا ہے۔ چندر شیکھر سنگھ کے ذریعہ مبینہ طور پر رام چرت مانس کو نفرت کی کتاب قرا دئے جانےپر شیوا نند تیواری کا کہنا ہے کہ رام چرت مانس پر کئے گئے اعتراض سے پارٹی کو کوئی لینا دینا نہیں ہے۔چندر شیکھر سنگھ کے بیان سے اگر پارٹی کے کسی لیڈر نے اتفاق کیا ہے تو اس سے بھی پارٹی کو کوئی تعلق نہیں ہے۔حالانکہ میں نہ تو چندر شیکھر سنگھ کے بیان سے متفق ہوں اور نہ جگدانند سنگھ کے بیان سے۔اور یہی پارٹی کا موقف بھی ہے۔
آر جے ڈی کے قومی نائب صدر شیوانند تیوار ی سماجوادی لیڈر رام منوہر لوہیا کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ بھی بھگوان رام کو مہا پرش مانتے ہیں اور ان سے بے پناہ عقیدت رکھتے ہیں۔ رام منوہر لوہیا بھی رام کو بھگوان مانتے تھے۔ مشہور پینٹر مقبول فدا حسین نے رام کے سینکڑوں ہورڈنگز بنائے تھے۔ وہ بھی کئی بار عوامی فورمز پر رام کے تئیں احترام کا جذبہ رکھتے تھے۔شیوانند تیوار ی کہتے ہیں کہ مہاتما گاندھی بھی رام پر یقین رکھتے تھے۔ جب ان کو گولی لگی تھی تب بھی ان کے منہ سے آخری الفاظ ’’ہےرام ‘‘ ہی نکلے تھے۔اسی لئے رام چرت مانس میں بہت سی اچھی چیزیں ہیں اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس پر یقین رکھتی ہے۔شیوانند تیوار ی کہتے ہیں کہ ہم بدھ کے بارے میں بات کرتے ہیں۔بہت کم لوگوں کو ان کے بارے میں علم ہے، لیکن اگر آپ ملک میں کہیں بھی رام کی بات کریں گے تو گاؤں کے ناخواندہ لوگ بھی آپ کو ان کے بارے میں چار پانچ باتیں بتائیں گے،کہانیاں سنائیں گے۔حالانکہ شیوانند تیواری بہار کے وزیر تعلیم چندر شیکھر سنگھ کی زبان کاٹ کر لانے پر 10 کروڑ روپے کے انعام کا اعلان کرنے والا فرضی سنت کو مجرم قرار دیتے ہیں اور یہ سوال پوچھتے ہیں کہ اس کو تشدد پھیلانے کا حق کس نے دیا ہے؟ ا س کے خلاف ایف آئی آر درج کی جانی چاہئے۔
ادھر آرجے ڈی کے ریاستی صدر جگدانند سنگھ کا چندر شیکھر سنگھ کے حق میں بیان سامنے آیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پوری پارٹی ان کے پیچھے کھڑی ہے۔ چندر شیکھر سنگھ رام چرت مانس پر اپنا بیان واپس نہیں لیں گے۔ ہمارے پاس لوہیا جی، کرپوری ٹھاکر جی کا سوشلسٹ نظریہ ہے، جنہوں نے سوشلسٹ اقدار کے لیے جدوجہد کی۔ ہمارے سماجوادی لیڈر لالو پرساد یادو بیمار ہیں، اب ہمارے پاس کوئی سوشلسٹ انقلابی لیڈر نہیں ہے، لیکن چندر شیکھر جی ان کے دکھائے ہوئے راستے پر سیاست کر رہے ہیں۔ چندر شیکھر جی اس سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔ میں انہیں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ پوری قوم آر جے ڈی خاندان کے ساتھ کھڑا ہے، ہم نے ہمیشہ کمنڈل نظریہ کے خلاف جنگ لڑی ہے اور ابھی بھی لڑنے کے لئے تیار ہیں۔واضح ہو کہ بہار کے وزیر تعلیم چندر شیکھر سنگھ نے گزشتہ بدھ کو نالندہ اوپن یونیورسٹی کے کانووکیشن کے دوران یہ تبصرہ کیا تھا کہ ’’منوسمرتی‘‘ ، ’’رام چرت مانس‘‘ اور آر ایس ایس کے دوسرے سربراہ ایم ایس گولوالکرکی کتاب ’’ بنچ آف تھاٹس‘‘ سبھی سماج میں نفرت پھیلانے کا کام کرتے ہیں۔تبھی سے دو گروپ آمنے سامنے ہے۔ لیکن ایسے میں امن پسند لوگوں کا یہی کہنا ہے کہ مذہب جیسے حساس معاملوں پر کبھی اپنی رائے نہیں تھوپنی چاہئے۔تمام بھارتیوں کو بھارت کے تمام مذاہب کا احترام کرنا چاہئے۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کا بھی اشارہ اسی انسانی اصول کی جانب ہے۔اور بھارت کے آئین کا بھی یہی تقاضہ ہے۔
*************************