تعلیم کے فروغ میں ہے ترقی کا راز

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 21st Jan.

علم ہی سب کچھ ہے، اس کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے۔ آج کے دور کا سب اہم کام حصول علم ہی ہے۔ جو قومیں حصول علم میں آگے ہیں وہی قومیں حقیقتاً ترقی اور کامیابی کی منازل کو تیزی سے طے کر رہی ہیں۔ وہی قومیں اپنی معاشی، ثقافتی اور دینی امور کو خاطر خواہ رفتار سے پروان چڑھارہی ہیں۔ یہ بات دنیا کے تمام باشعور لوگوں کو معلوم ہے کہ برطانیہ میں صنعتی انقلاب کے بعد وہاں کے اہل دانش اور حکمران طبقے نے تعلیم پر سب سے زیادہ توجہ دی اور یہی ان کی ترقی کاراز ہے۔ امریکہ ، چین، جاپان اور فرانس جیسے ممالک بھی تعلیم کے فروغ کی بدولت ہی دنیا میں ترقی یافتہ اقوام کادرجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ کیونکہ ان ممالک نے جدید علوم میں زیادہ زور ملازمت کے لیے ہنر کی تربیت ، ہر خاص وعام میں ذہنی صلاحیتوں کی نشوونما ، ایک متوازی معاشرے کی ترویج میں اہم کردار ادا کرنے اور علم وہنر کی بنیادوں پر مبنی، معیشت کی ضروریات کومہارت کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اپنی نوجوان نسل کوسوفی صد تعلیم یافتہ کرنے کے لیے اقدامات کیے اور نئی نسل کے لیے ایسی مفید اور مؤثر پالیسیاں بنائیں جس کی وجہ سے ان کے ہاں تعلیم کی شرح100فی صد تک پہنچ گئی۔ مندرجہ بالا مثالوں سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ دراصل تعلیم کوفروغ دینے سے ہی قوموں کی ترقی کا آغاز ہوتا ہے۔ 21ویں صدی کی تیسری دہائی میں قدم رکھنے کے باوجود ہمارے ملک کے پالیسی سازوں نے تعلیم کی اہمیت کونہیں سمجھا۔ بلا شبہہ اس شعبے کی حالت کو بلا تاخیر سدھارا نہیں گیا تو ملک کی ترقی کا خواب محض خواب ہی رہ جائے گا۔ آج بھی اگر ہم تعلیم کے حوالے سے موجودہ صورتحال کاتجزیہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس ملک کے کروڑوں بچے اسکول نہیں جاتے ہیں۔ 20فی صد اسکولوں کے لیے عمارت موجود نہیں ہیں، جبکہ اس ضمن میں تصویر کاایک بھیانک رخ یہ بھی ہے کہ ملک کے 25فی صد اساتذہ ، تنخواہ وصول کرنے کے باوجود طلباء کوتعلیم دینے کے لیے اسکولوں کارخ نہیں کرتے۔ اور جو رخ کرتے ہیں ان میں سے کم از کم 50 فیصد ایسے ہوتے ہیں جو اپنی منصبی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ذرا بھی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔دوسری طرف یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ تعلیمی اداروں میں سیاسی جماعتوں کا بڑھتا ہوا اثرروسوخ ، تعلیمی اداروں کے ماحول کوتباہ کرنے اور وہاں کی خوبیوں کو نیست و نابود کرنے کاسبب بنتا رہا ہے۔ ملک کے موجودہ ناگفتہ بہ حالات کو دیکھتے ہوئے اور نوجوان نسل خصوصاً طلبہ کے مفادات اور مستقبل کے معماروں کی اہمیت کودھیان میںرکھتے ہوئے اس سچائی کوتسلیم کرنا ہوگا کہ طلبہ کی ذہنی ، اخلاقی اور دینی تربیت پر کسی کی توجہ نہیں ہے۔ طلبہ تنظیموں، جن کی جڑیں سیاسی جماعتوں سے جاملتی ہیں، وہ بھی تعلیم کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو بھول بیٹھی ہیں۔ تعلیمی اداروں، اساتذہ کرام ، والدین اور معاشرے کی مشترکہ ذمہ داری سرد مہری کا شکار ہو گئ ہے۔ دوسری جانب ملک کی سیاسی، معاشی اور معاشرتی صورتحال کے مد نظر طلبہ کے کندھوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی کہ وہ تمام تعلیمی اداروں، یونیورسٹیوں، اسکولوں اور کالجوں کوصرف حصول علم اور نصابی سرگرمیوں کے لیے استعمال کریں نہ کہ سیاسی سرگرمیوں اور غیر تعلیمی کاروائیوں میں حصہ لے کر اپنا مستقبل داؤ پر لگائیں۔ ویسے بھی طلباء کی اس طرح کی منفی حرکات سے نہ صرف تعلیمی اداروں کاتقدس پامال ہوتا ہے بلکہ وقت بھی ضائع ہوتا ہے ، جو طلبہ کے لیے دوران تعلیم صرف قیمتی ہی نہیں بلکہ سرمایہ حیات کادرجہ بھی رکھتا ہے۔ لہٰذا اقتضائے حالات کا تقاضہ ہے کہ بحیثیت قوم ہم حصول علم کے میدان میں سب سے آگے رہیں۔ تعلیم کے فروغ میں ہی ہماری ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔