’خوشی کا دوسرا نام محبت ہے ‘‘

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 1st Jan.

قیصر محمود عراقی

محبت محض افسانوی جذبہ نہیں ، ایک ٹھوس حقیقت ہے اور انسانی زندگی میں اس کی اہمیت دنیا کی ہر چیز سے زیادہ ہے ، محبت انسان کو جتنی خو شی دے سکتی ہے ، دنیا کی کوئی اور چیز نہیں دے سکتی ۔ محبت خیال و خواب کی دنیا کے کسی جذبے کا نام نہیں بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے سائنس داں اور انسان کے ذہنی و جسمانی مسائل پر تحقیق کر نے والے نفسیاتی ما ہرین بھی تسلیم کر تے ہیں ۔ یہ صرف ایک کیفیت جذبے یا احساس کا نام نہیں بلکہ محبت با قاعدہ ایک نظام کی طرح کام کر تی ہے اور انسان میں نہ جا نے کیا کچھ پیدا کر نے کی تحریک پیدا کر تی ہے ۔
محبت کی طاقت انسان سے نہ جا نے کیا کچھ کرا لیتی ہے ۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت زیادہ دولت کمالیں ، اچھا سا گھر بنا لیں ، ان کے پاس اچھی سی گاڑی ہو ، خوبصورت بیوی ہو ، پیارے پیارے سے بچے ہو ں تو بس ان کی زندگی میں خو شیاں ہی خوشیاں ہو نگی۔ لیکن جب انھیں یہ سب کچھ حاصل ہو جا تا ہے تو انھیں پتہ چلتا ہے کہ ان کی زندگی میں خوشی تو اب بھی نہیں ، سب کچھ ان کے پاس ہے ، مگر اس کے با وجود ایک خلاء سا ہے ، کوئی کمی ہے ، کوئی تشنگی ہے ، یہ خلاء دراصل محبت کا ہو تا ہے ان کی زندگی میں کمی صرف محبت کی ہو تی ہے ، لیکن وہ اسے صحیح طور پر اور وضا حت سے سمجھ نہیں پا تے ۔ ساری نا خوشی ، سارا عدم اطمینان اس کمی اور تشنگی کی وجہہ سے ہو تا ہے اسی طرح بعض لوگ زندگی کی خوشیاں مختلف چیزوں میں تلاش کر تے ہیں ، کوئی سوچتا ہے مجھے فلاں چیز مل جا ئے ، تو زندگی بڑی ہنسی خوشی گزرے گی ، کوئی امید رکھتا ہے کہ آسائش اس کی زندگی میں آجائے تو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہے گی ، لیکن ان سب لوگوں کو جب اپنی مطلو بہ چیز حاصل ہو جا تی ہے تو اپنی دانست میں اپنی منزل تک پہنچ جا تے ہیں تب بھی دل و ذہن کی تشنگی بر قرار رہتی ہے ۔ محسوسات پر ایک قسم کی پیا س سی بر قرار رہتی ہے ، جو کسی بھی چیز سے صحیح طور پر لطف اندوز نہیں ہو نے دیتی ۔ یہ محبت کی پیاس ہو تی ہے ۔ محبت سے مراد صرف وہی محبت نہیں جو ایک مرد اور عورت کے درمیان ہو تی ہے ۔ فلموں میں ہیروئین اور ہیرو کے درمیان دکھا ئی جا تی ہے جس کے بارے میں اخباروں میں کبھی کبھار خبریں چھپتی ہیں کہ پریمی جو ڑے نے گھر سے بھاگ کر شادی کر لی یا پانچ بچوں کی ما ں آشنا کے ساتھ فرار ہو گئی ۔
محبت کی صرف یہ ہی شکلیں نہیں ہو تیں گو کہ یہ بھی محبت ہی کے رو پ ہیں ، لیکن در حقیقت بے شمار شکلوں میں موجود اور بے شمار رشتوں کا لبادہ اوڑھ کر ہمارے سامنے آتی ہے اور اگر محبت واقعی صرف محبت ہی ہو تو وہ ہماری زندگی میں بے شمار خوشیاں بکھیر تی ہے ۔ اگر یوں کہا جا ئے تو بے جا نہ ہو گا کہ محبت دراصل خوشی کا دوسرا نام ہے ۔
جب محبت آپ کی زندگی میں آتی ہے تو ایسی خوشی بھی اتنی حقیقی ہو تی ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ، وہ محبت اپنے بچے یا بچی سے بھی ہو سکتی ہے ،کسی سیاسی یا مذہبی شخصیت سے بھی ہو سکتی ہے ، کسی اداکارہ یا اداکار سے بھی ہو سکتی ہے ، آپ کو انسانیت سے بھی محبت ہو سکتی ہے اور اس کی وجہہ سے آپ فلاحی کاموں میں حصہ لینے والے کوئی سر گرم کار کن یا رضا کار بھی بن سکتے ہیں،اگر آپ میں حوصلہ اور ہمت ہو ، آپ کے وسائل اجازت دیتے ہیں یا پھر معاشرے میں آپ کا بہت بڑا نام ہو تو آپ خود اپنی فلاحی تنظیم یا ادارہ بھی بنا سکتے ہیں ، تحقیق کر نے والے اس بات پر متفق ہیں کہ محبت کی سب سے اچھی شکل یہی ہے جو لوگ انسانیت سے اور انسانوں سے پیار کر تے ہیں ، ان کی خدمت کا کوئی نہ کوئی رشتہ ، کوئی نہ کوئی طریقہ نکال لیتے ہیں ،وہی سب سے زیادہ خوش اور مطمئین ہو تے ہیں ، وہ ذہنی طور پر دوسروں سے زیادہ صحت مند اور عجیب بات یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ محنت کے با وجود آپ کو جسمانی طور پر فٹ اور صحت مند ہی نظر آئینگے ۔اگر وہ بڑی عمر کے ہو نگے تب بھی آپ ان کے بیمار ہو نے کا تذکرہ کم ہی سنینگے ۔ بعض لوگ اپنی ذات اور اپنے آپ سے بھی محبت کر تے ہیں ، لیکن یہ محبت کی کوئی اچھی قسم نہیں ۔ نفسیات ، سما جیات ، عمرانیات اور طب کے بہت سے ما ہرین نے محبت کے بارے میں تحقیق کی ہے اس کی تفصیلات کے لئے تو دفتر کے دفتر درکار ہیں ، لیکن اس کا نچوڑ ہم نہایت مختصر پیرا ئے میں پیش کر تے ہیں ، اس کے اہم نکات درج ذیل ہیں ۔
دولت سے زندگی میں سچی خوشی اور اطمینان حاصل نہیںہو تی ، جو لوگ یہ سمجھ کر دولت کے پیچھے بھا گتے ہیں کہ یہ تمام مسائل کا حل ہے تو انھیں زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر یہ احساس ضرور ہو تا ہے کہ وہ غلطی پر تھے ۔ اچھے کھا نے کھانا، روپیہ کما نے کے لئے بھاگ دوڑ کر نا، شاپنگ یا تفریح کر نا ان سر گرمیوں سے جو خوشی حاصل ہو تی ہے وہ مختصر وقت کے لئے ہو تی ہے ، یہ خوشی پائیدار پادیر یا نہیں ہو تی ۔ خوشی کا دار و مدار اس بات پر نہیں کہ وہ آپ کو کتنی دیر کے لئے حاصل رہی بلکہ خوشی کا دار و مدار اس پر ہے کہ آپ نے اسے کتنی اہمیت دی ۔ وہ جتنی دیر بھی آپ کو حاصل رہی آپ نے کتنی شدت سے اسے محسوس کیا۔ لوگوں سے میل جول رکھنا ، ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، دوسروں کے ساتھ بھلا ئی کر نا ، ان کے کام آنا، ان کی مشکلات کے سلسلے میں ان کی مدد کر نا سب سے زیادہ خوشی ان باتوں میں پو شیدہ ہے ۔ لیکن افسوس کہ زما نے کا چلن کچھ ایسا بن گیا ہے کہ ہم میں سے زیادہ لوگ ان باتوں کو اہمیت نہیں دیتے اور انھوںنے یہ طریقے ترک کر دئیے ہیں ، زیادہ با صفی یا تعمیری کام کر نے سے بھی خوشی اور اطمینانیت حاصل ہو تی ہے ۔ اپنے کام سے محبت کر نا بھی خوش رہنے کا ایک ذریعہ ہے ، خوشی اور محبت حاصل کر نے کے یہ سب طریقے ایسے ہیں جن کاآپ کو صلہ دیرپا ملتا ہے ، اگر فوری طور پر نہ ملے تو آگے لچ کر ضرور ملتا ہے ۔
بعض لوگ اپنی ذات سے محبت کر تے ہیں لیکن یہ محبت صرف خود غرضی یا خود پسندی کی علامت نہیں ہو تی بلکہ رفتہ رفتہ اسی کے ذریعے وہ دوسروں سے محبت کرنا بھی سیکھتے ہیں ، چاہے اس محبت کی نو عیت کچھ بھی ہو ، بعض لوگ جب اپنے آپ سے محبت کر تے ہیں تو رفتہ رفتہ ان پر محبت کے معانی آشکار ہو تے ہیں اور محبت کا حقیقی مفہوم ان کی سمجھ میں آتا ہے جس کے بعد ان کی محبت کا دائرہ وسیع ہو تا ہے اور دوسروں سے بھی محبت کر نے لگتے ہیں ، لیکن بعض لوگوں کی اپنے آپ سے محبت نر گسیت میں تبدیل ہو جا تی ہے وہ صرف اپنے آپ سے ہی محبت کر تے کر تے دنیا سے رخصت ہو جا تے ہیں ۔
بعض لوگوں کا اپنے آپ سے محبت کر نا ان کے بڑے کام آنا ہے ، وہ اپنے آپ کو بنا سنوار کر رکھتے ہیں اور دوسروں کی نظر میں اپنی عزت بنا نے کی کوشش کر تے ہیں ، یہ بھی تعمیری اور مثبت با تیں ہیں ، ان عادات کے ساتھ اپنے آپ سے محبت کر تے ہیں کوئی حرج نہیں ، لیکن بعض لوگوں کی اپنے آپ سے محبت اپنے ساتھ صرف منفی پہلو سے ہو کر آتی ہے وہ خود کو ساری دنیا سے افضل سمجھنا شروع کر دیتے ہیں ، دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں ،انھیں احساس ہی نہیں ہو پا تا کہ اس طرح وہ دوسرے کے دلوں میں اپنے لئے نفرت پیدا کر رہے ہیں ، نفرت ایک ایسا منفی اور نقصا ندہ جذبہ ہے کہ صرف اسی کو ضرر نہیں پہنچاتا ، جس کے دل میں موجود ہو تا ہے بلکہ نا دیدہ شعاعوں کی طرح اس کے اثرات اس شخص تک بھی پہنچتے ہیں جن سے نفرت کی جا تی ہے ، بلکل اسی طرح محبت ایک مثبت تعمیری جذبہ ہے یہ جس کے دل میں موجود ہوتا ہے اس دل کو پھول کی طرح کھلا ئے رکھتا ہے اور جس شخص سے محبت کی جا تی ہے اس تک بھی اس کی نا دیدہ شعاعیںپہنچتی ہیں ۔
المیہ یہ ہے کہ آج کے دور میں انسان نے انسان سے محبت کر نا چھوڑ دیا ہے ، سب اپنی اپنی اغراض کے غلا م ہو کر رہ گئے ہیں ، ہر شخص بس اس فکر میں ہے کہ وہ دوسروں سے کیا فائدہ اُٹھا سکتا ہے کوئی خود کسی کا فائدہ پہنچا نے کے بارے میں سوچتا بھی نہیں ۔ خود غرضی اور مادہ پرستی نے ہمیں سچی خوشی کی خواہش سے محروم کر دیا ہے ۔ لہذا آئیں! ایک مر تبہ سوچیں اور بھولے ہو ئے سبق کو یاد کر نے کی کوشش کریں ، محبت کریں ، محبت بانٹیں او ر زیادہ سے زیادہ لوگوں سے محبت کریں ، سچی خوشی حاصل کر نے کا سب سے اچھا راستہ یہی ہے ۔
موبائل :6291697668