رسومات۔مسلمان کیا کرے؟

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 9th Jan.

ریاض فردوسی۔9968012976

انسان ایک معاشرتی جاندار ہے،وہ سوسائٹی کے مروجہ رسموں کے ساتھ جیتا ہے۔رسم ورواج سماجی زندگی کی علامت ہے۔ ہر سوسائٹی کے الگ الگ رسم ہوتے ہیں۔کچھ رسومات ایسے ہوتے ہیں،جو مشترکہ ہوتے ہیں۔مثلاً شادی ،بیاہ کا رسم ،طلاق کا رسم،تعدد ازدواج کا رسم۔تاریخ کا کوئی دور ان رسم ورواج کے اثرات سے خالی نہیں رہا ہے، ہر قبیلہ،ہر قوم اور ہر تہذیب میں اسے عمومی دستور العمل کی حیثیت حاصل رہی ہے۔قبل مسیح عہد اور بعد مسیح کے کچھ صدیوں تک فتوحات کے ذریعہ ایک سوسائٹی کا کلچر،رسم ورواج دوسرے سوسائٹی میں منتقل ہوتا تھا۔
مثلاً یونان کے ماتحت جتنے بھی مفتوح قومیں تھیں،وہاں یونانی کلچر کا غلبہ ہوگیا تھا۔ہمارے ہی ملک بھارت میں جب انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی تو لوگوں کے دل و دماغ میں انگریزی کلچر چھا گیا اور آج بھی اسی قوت کے ساتھ برقرار ہے۔پھر سائنس کی ترقی کے باعث آمدورفت کے ذرائع ایجاد ہوئے اور دنیا ایک Global village بن گیا، اور انسان ایک دوسرے کے قریب ہو گئے ،تو انسان ایک دوسرے کا کلچر رسم و رواج اپنانے لگے اور وہ ہماری زندگی کا حصہ بن گئی، مثلاً New year کا جشن، شادی کے بعد Honey moon پرجانا،گھر میں بچوں کا Birth Day منانا،اسی طرح کسی خاص تاریخ کو کسی رشتہ کے ساتھ جوڑ دینا جیسے مدرس ڈے،چلڈرن ڈے،ٹیچرس ڈے وغیرہ۔
اب بحیثیت مسلمان ہم ان رسموں کا کیا کریں؟ ترک کر دیں یا منائے؟ کیا تمام مغربی رسومات کا بائیکاٹ کریں یا ان میں سے بعض کا؟یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ ویلنٹائن ڈے ایک خراب رسم ہے لیکن ہنی مون پر جانا بھی کیا خراب ہے؟اب تو بعض لوگوں نے چلڈرن ڈے،ٹیچرس ڈے پر بھی انگلیاں اٹھانا شروع کر دی ہیں۔جو رسمیں انسان کی انفرادی واجتماعی زندگی کے لئے موزوں ومفید ہیں۔اسلام نے انہیں اختیار کیا ہے اور ان پر عمل آوری کی ترغیب دی ہے اور جو رسمیں اسلامی مزاج سے نہیں ملتی ہیں اور معاشرہ کے لیے مضر ہیں۔شریعت اسلام ایسی رسومات کو منع فرمایا ہے۔پیدائش کے بعد اذان کی رسم تو دیر سویر ادا ہوجاتی ہے،لیکن عقیقہ کو ترک کرکے چھڈی،چلہ بڑے پیمانے پر کیا جاتا ہے۔پیدائش،شادی اور وفات کی رسومات کا جائزہ لیاجائے تو معلوم یہ ہوگا کہ ان کی تعداد تقریباً سو تک پہونچ گئی ہے۔انتقال کے بعد مرحوم اولاد اور رشتے داروں کا ایصالِ ثواب کے لئے قرآن پڑھنا تو ٹھیک ہے لیکن سوئم،دسواں،چالیسواں اور ان کو مخصوص دن میں کرنا،دو چاند کے بعد کرنا،اور مدرسے کے حفاظ اکرام کو بلوا قرآن مجید پڑھوانا۔نکاح میں اصل چیز ایجاب و قبول ہے۔نئے کپڑے پہننا اور خوشی منانا جائز ہے۔مہر کی رقم دس درہم سے کم نہ ہو۔دلھن کو گھریلو استعمال کی چیزوں میں اعتدال ہونا چاہیے۔لڑکی والوں سے جہیز کا مطالبہ(باتوں کو گھما پھرا کر) درست نہیں ہے۔لڑکی والے اپنی استطاعت کے مطابق سامان دے دیں تو الگ بات ہے۔نکاح کے بعد ایک دوسرے کو کھانے کی دعوت دینے میں بھی اعتدال ہو ایک دوسرے پر بوجھ ڈالنا تعلیم اسلام کے خلاف ہے۔لڑکی والوں کو بھی چاہیے کہ لڑکے اور اس کے گھر والوں پر اتنا بوجھ نہ ڈالے کہ وہ اس کی طاقت سے باہر ہو۔رخصتی کے موقع پر دف بجانا سنت ہے لیکن خواتین اور مرد الگ ہوں تو دف بجانا اور خوشی منانا جائز ہے۔مہردس درہم سے کم نہ ہو۔اپنی استطاعت کے مطابق رشتے داروں اور دوستوں کو دعوت دینا سنت ہے(ولیمہ)کیا ان کے علاوہ ہمارے معاشرے میں غیر اسلامی رسومات نکاح کے موقع پر نہیں ہوتی ہے؟
محرم الحرام میں نوحہ خوانی کا جلسہ،،سینہ کوبی،تعزیہ داری،واحیات Music پر ناچتے لوگ اور اسی طرح کی بہت سے رسوم جومقصد شہادت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی روح کا خاتمہ کرتے ہیں بڑے پیمانے پر انجام دی جاتی ہے۔ خاص کر اہل تشیع بھائیوں کے یہاں یہ سلسلہ چالیس روز تک رہتا ہے۔کیا اس لئے امام حسینؓ نے اپنی شہادت دی کہ ان کی عظیم قربانی کااس طرح مذاق اڑایا جا ئے؟ اس طرح کی مروجہ غیر اسلامی رسومات اور ان میں شرکت ابلیس اور اس کے معاون کو کافی تقویت پہنچاتی ہیں۔
علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ ایک ایک رسم کا اچھی طرح سے جائزہ لیں اور قرآن مجید اور احادیث نبوی ﷺ کی روشنی میں محبت اور پیار سے یہ لوگوں کو بتائیں کہ فلاں رسم ناجائز اور حرام ہے اور اس سے مسلمانوں کو اجتناب کرنا چاہیئے۔صرف یہ کہہ دینا کہ فلاں رسم(واضح رہے یہاں رسم سے مراد خاص طور سے مذہبی رسم نہیں بلکہ سماجی رسم) اسلام میں نہیں ہے یہ بہت ہی کمزور دلیل ہے۔
میں نے ایک عالم دین سے سوال کیا کہ کیانیا سال کی مبارکباد دینا گناہ ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا گناہ تو نہیں ہے لیکن اس سے بچنا چاہئے۔
زمانہ جاہلیت میں عرب میں بھی بہت ساری رسمیں تھیں،ان میں سے بعض کو منسوخ کر دیا گیا،بعض کو بحال رکھا گیا،اور بعض کو چند تبدیلیوں کے ساتھ برقرار رکھا گیا۔
مثلاً عرب میں ایک یہ رسم تھی کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو اپنی ماں کی پیٹھ یا اور کسی عضو سے تشبیہ دی اور کہہ دیا تو میرے لئے ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ،وہ بیوی ہمیشہ کے لئے اس پر حرام ہوگئی۔اس لئے بیان فرمایا سورہ الاحزاب آیت۔4 کے درمیان میں ہے۔تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ اگر کسی نے بیوی کو ماں کی برابر یا مثل کہہ دیا تو وہ حقیقی ماں کی طرح ہمیشہ کے لئے اس پر حرام ہوگئی، تمہارے کہنے سے بیوی حقیقتاََماں نہیں ہوجاتی،تمہاری ماں تو وہی ہے جس سے تم پیدا ہوئے ہو۔اس آیت نے اہل جاہلیت کے اس خیال کو تو باطل کردیا کہ بیوی کو ماں کہنے سے وہ ماں ہوگئی۔اس رسم کو کلیتہً منسوخ کر دیا گیا۔
حضرت زینب بنت جحش ؓکا نکاح حضرت زید بن حارثہ ؓکے ساتھ ہوگیا،مگر دونوں کی طبیعتوں میں موافقت نہ ہوئی،حضرت زینب بنت جحشؓ کی مطلقہ ہو گئی اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ ان کا نکاح ہو گیا اس طرح جاہلیت کی رسم بد اور اس خیال باطل کی عملی تردید ہوگئی کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح حرام ہے۔عرب میں رسم یہ بھی تھی کہ ایک آدمی کسی دوسرے کے بیٹے کو اپنا متبنی(منہ بولا بیٹا) بنا لیتا تھا اور اسی کا بیٹا کہہ کر پکارا جاتا تھا اور ان کے نزدیک یہ منہ بولا بیٹا تمام احکام میں اصلی بیٹے کی طرح مانا جاتا تھا۔مثلاً میراث میں بھی اس کی اولاد کے مثل حقیقی اولاد کے شریک ہوتا تھا اور نسبی رشتہ سے جن عورتوں کے ساتھ نکاح حرام ہوتا ہے،یہ منہ بولے بیٹے کے رشتہ کو بھی ایسا ہی قرار دیتے۔مثلاً جیسے اپنے حقیقی بیٹے کی بیوی سے اس کے طلاق دینے کے بعد بھی نکاح حرام رہتا ہے یہ منہ بولے بیٹے کی بیوی کو بھی طلاق کے بعد اس شخص کے لئے حرام سمجھتے تھے۔اسی طرح یہ رسم بھی زمانۂ جاہلیّت میںتھی کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی سے ظِہار کرتا تھا تو وہ لوگ اس ظہار کو طلاق کہتے اور اس عورت کو اس کی ماں قرار دیتے تھے اور جب کوئی شخص کسی کو بیٹا کہہ دیتا تھاتو اس کو حقیقی بیٹا قرار دے کر میراث میں شریک ٹھہراتے اور اس کی بیوی کو بیٹا کہنے والے کے لئے حقیقی بیٹے کی بیوی کی طرح حرام جانتے تھے۔اس رسم کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ جن بیویوں کو تم نے ’’ماں جیسی‘‘کہہ دیا ہے تو ا س سے وہ تمہاری حقیقی مائیں نہیں بن گئیں اور جنہیں تم نے اپنا بیٹاکہہ دیا ہے تو وہ تمہارے حقیقی بیٹے نہیں بن گئے اگرچہ لوگ انہیں تمہارا بیٹا کہتے ہوں۔بیو ی کو ماں کے مثل کہنا اور لے پالک بچے کو بیٹا کہنا ایسی بات ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں، نہ بیو ی شوہر کی ماں ہو سکتی ہے نہ دوسرے کافر زند اپنا بیٹا اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ حق بیان فرماتا ہے اور وہی حق کی سیدھی راہ دکھاتا ہے، لہٰذانہ بیوی کو شوہر کی ماں قرار دو اور نہ لے پالکوں کو ان کے پالنے والوں کا بیٹا ٹھہراؤ(خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: 4، 3 /482)
یہ رسم متبنیٰ بیٹے یعنی منہ بولا بیٹا کا تھا۔ اس کے متعلق فرمایا (آیت) وماجعل ادعیاء کم ابناء کم،مطلب یہ اسی طرح منہ بولا بیٹا تمہارا بیٹا نہیں بن جاتا۔ یعنی دوسرے بیٹوں کے ساتھ نہ وہ میراث میں شریک ہوگا اور نہ حرمت نکاح کے مسائل اس پر عائد ہوں گے کہ بیٹے کی مطلقہ بیوی باپ پر ہمیشہ کے لئے حرام ہے تو متبنیٰ کی بیوی بھی حرام ہو۔ اس لئے یہ حکم نافذ کردیا گیا کہ متبنیٰ بیٹے کو جب پکارو تو اس کے اصلی باپ کی طرف منسوب کر کے پکارو کرو۔ جس نے بیٹا بنا لیا ہے اس کا بیٹا کہہ کر خطاب نہ کرو۔
صحیح بخاری ومسلم وغیرہ میں حضرت ابن عمر ؓکی حدیث ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے ہم زید بن حارثہ ؓ کو زید بن محمد کہا کرتے تھے کیونکہ رسول ﷺ نے ان کو متبنیٰ بنا لیا تھا، اس آیت کے نزول کے بعد ہم نے یہ عادت چھوڑ دی۔لیکن دوسری جانب رضاعت کی رسم کو باقی رکھا گیا اور تعدد ازدواج میں بیک وقت چار عورتوں سے نکاح کی حد بندی کرکے اس رسم کو آئندہ کے لئے جاری رکھا گیا۔
اب مفتیان کرام ہی ہماری رہنمائی کریں کہ مسلمان مغربی رسوم کا کیا کرے؟
سورۃ المائدہ آیت 38 میں ہے کہ اور چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت، سو تم دونوں کے ہاتھ کاٹ دو،(یہ)اس کابدلہ ہے جوان دونوں نے کمایا،اوراللہ تعالیٰ کی طرف سے عبرت ہے،اوراللہ تعالیٰ سب پرغالب،کمال حکمت والاہے۔میں قانون حربہ کے تحت مجرم کو ایک سزا دینے کا یہ بھی Provision ہے کہ مجرم کے ہاتھ کاٹ دئے جائیں،اس قانون کی تاریخ پر اگر غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ سزا موسی علیہ السلام کے زمانہ میں فرعون مصر میں مجرموں کو دیتا تھا،جب جادوگروں نے موسیٰ علیہ السلام کے دین پر ایمان لے آئے تو فرعون نے یہی حکم جاری کیا کہ انکے ہاتھ اور پیر مخالف سمتوں سے کاٹ دیا جائے،مصر کے اس دو ہزار سال پرانی قانون کو اللہ تعالی نے ترمیم کے ساتھ قرآن مجید میں جگہ دی،اسی طرح سلیب پر لٹکا کر مجرم کو سزا دینے کا رواج مصر اور بعد میں رومیوں کے یہاں تھا،صلیبی سزا کو بھی اسی سورہ میں بیان کیا گیا ہے۔
آخر میں!
انسانی زندگی میں پیش آنے والے تمام معاملات،عقائد وعبادات،اخلاق وعادات کے لیے نبی ﷺ کی ذات مبارکہ اسوۂ حسنہ کی صورت میں موجود ہے۔اس لئے ہر مسلمان کو چاہیے کہ دنیا میں کس طرح سے زندگی گزاری جائے اس کے لئے آپ ﷺ کی مکمل سیرت طیبہ کا کم سے کم 5 مختلف عالموں کی کتاب کا مطالعہ کرے،یا ایسے عالم صاحب سے پوچھے،یا سنے جن کی آپ ﷺ کے زندگی کے ہر پہلوؤں پر نظر ہو،تاکہ ہم اپنی عبادات ومعاملات کو شریعتِ اسلامی کے مطابق انجام دے سکے۔