Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 2nd Jan.
جنیوا ،2جنوری:بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم یف) کی سربراہ کرسٹالینا جارجیوا نے کہا ہے کہ زیادہ تر عالمی معیشتوں کے لیے سن 2023 ایک مشکل سال ہو گا کیوں کہ عالمی شرح نمو کے اہم انجنوں، امریکہ، یورپ اور چین کو کمزور اقتصادی سرگرمیوں کا سامنا رہا ہے۔آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے امریکی نیوز چینل ‘سی بی ایس’ کو اتوار کو بتایا کہ نیا سال ابھی ختم ہونے والے سال سے زیادہ مشکل ہونے والا ہے کیوں کہ ترقی کے تینوں بڑے مراکز بیک وقت اقتصادی سست روی کو شکار ہیں۔گزشتہ سال اکتوبر میں آئی ایم ایف نے 2023 کی عالمی اقتصادی نمو کی پیش گوئی میں کمی کا اعلان کیا تھا۔ عالمی ادارے کا اقتصادی منظر نامہ اس دباؤکو ظاہر کرتا ہے جو یوکرین میں جنگ ، افراط زر اور امریکی فیڈرل ریزرو جیسے مرکزی بینکوں کی طرف سے شرح سود میں مہنگائی کو قابو کرنے کی غرض سے کیے گئے اضافے کیباعث اقتصادی نمو پر اثر انداز ہو رہا ہے۔آئی ایم ایف کی پیش گوئی میں کمی کیبعد سے چین نے ‘زیرو کووڈ’ پالیسی کو ختم کر دیا ہے اور اپنی معیشت کو بے ترتیب انداز سے دوبارہ کھولنے کا آغاز کر دیا ہے۔ لیکن چین کے صارفین کرونا وائرس کے کیسز میں اضافے کے باعث محتاط نظر آتے ہیں۔پالیسی میں تبدیلی کے بعد پہلی بار عوامی سطح پر تبصرہ کرتے ہوئے چین کے صدر شی جن پنگ نے ہفتے کے روز نئے سال کے خطاب میں مزید کوششوں اور اتحاد کے لیے زور دیا تھا۔آئی ایم ایف کی سربراہ جارجیوا نے انٹرویو میں نوٹ کیا کہ 40 برسوں میں ایسا پہلی بار ہونے کا امکان ہے کہ سن 2022 میں چین کی ترقی عالمی نمو کے برابر یا اس سے کم ہوگی۔انہوں نے مزید کہا کہ چین میں آنے والے مہینوں میں کرونا وائرس کی متوقع ‘بش فائر’ یعنی تیزی سے پھیلنے کی صورت میں اس سال اس کی معیشت کو مزید متاثر کر سکتی ہے اور علاقائی اور عالمی ترقی دونوں پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ گزشتہ ہفتے چین میں تھیں۔لیکن وہ ایک ایسے شہر میں تھیں جہاں کرونا کا کوئی کیس نہیں تھا۔ “لیکن ایک بار جب لوگ سفر کرنا شروع کردیں گے تو یہ صورت نہیں رہے گی۔جارجیوا کے بقول “اگلے دو مہینے چین کے لیے مشکل ہوں گے، چینی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے جب کہ خطے عالمی ترقی پر بھی منفی اثرات ہوں گے۔اکتوبر کی پیش گوئی میں عالمی مالیاتی ادارے نے گزشتہ سال چین کی مجموعی پیداوار کی شرح نمو 3.2 فی صد رکھی تھی جو کہ 2022 کے لیے فنڈ کے عالمی ‘آؤٹ لک’ کے مطابق ہے۔ اس وقت ادارے نے کہا تھا کہ 2023 میں چین میں سالانہ نمو 4.4 فی صد تک ہوگی جب کہ عالمی سرگرمیاں مزید سست ہو ں گی۔امریکی معیشت کے بارے میں جارجیوا نے کہا کہ یہ دوسری معیشتوں کے مقابلے میں مختلف ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ معاشی دباؤ سے بچ جائے جس سے دنیا کی ایک تہائی معیشتوں کو نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔انہوں نے کہا کہ “امریکہ (کی معیشت) سب سے زیادہ لچک دار ہے اور یہ کساد بازاری سے بچ سکتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ کی لیبر مارکیٹ کافی مضبوط ہے۔تاہم امریکی معیشت کی یہ حقیقت اپنے طور پر ایک خطرہ بھی پیش کرتی ہے۔ امریکہ میں گزشتہ برس مہنگائی کی شرح گزشتہ چار دہائیوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی، جسے واپس اپنے ہدف کی سطح پر لانے کے لیے مرکزی بینک فیڈرل ریزرو کی کوششوں میں رکاوٹ پڑ سکتی ہے۔اگرچہ افراط زر نے 2022 کے اختتام پر اپنے عروج سیواپسی کے کچھ آثار دکھائے، پھر بھی فیڈرل ریزرو کے ترجیحی اقدام کے مطابق افراطِ زر اپنے دو فی صد کے ہدف سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔جارجیوا کے الفاظ میں “یہ ایک ملی جلی نعمت ہے کیوں کہ اگر لیبر مارکیٹ بہت مضبوط ہے تو فیڈرل ریزرو کو افراطِ زر کو کم کرنے کے لیے شرح سود کو مزید سخت رکھنا پڑ سکتا ہے۔یاد رہے کہ فیڈرل ریزرو نے پچھلے سال 1980 کی دہائی کے بعد سے سخت ترین پالیسیاں اپنا تے ہوئے مارچ میں اپنے’بینچ مارک پالیسی ریٹ‘ کو صفر کے قریب سے اٹھا کر 4.25 فی صد اور پھر 4.50 تک بڑھا دیا تھا۔فیڈرل ریزرو کے حکام نے پچھلے مہینے اندازہ لگایا تھا کہ سن 2023 میں شرح سود پانچ سے بڑھ جائے گی جو سن 2007 کے بعد سے اب تک نہیں دیکھی گئی۔خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق فیڈرل ریزرو کے لیے امریکی جاب مارکیٹ توجہ کا مرکز ہو گی کیوں کہ حکام چاہیں گے کہ قیمتوں کے دباؤ کو کم کرنے میں مدد کے طور پر مزدوروں کی مانگ میں کمی آئے۔نئے سال کے پہلے ہفتے میں امریکہ میں روزگار کے محاذ پر کلیدی اعداد و شمار جاری کیے جائیں گے۔ ان میں ماہانہ ’نان فارم پے رولز‘ کی رپورٹ بھی شامل ہوگی جو متوقع طور پر ظاہر کرے گی کہ امریکی معیشت نے دسمبر میں مزید دو لاکھ ملازمتوں کے مواقع پیدا کیے اور بے روزگاری کی شرح سن 1960 کے بعد سے 3.7 فی صد کی کم ترین سطح پر رہی۔