غزہ کی 23 لاکھ کی آبادی کے لیے صرف 82 جج

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 1st Jan.

غزہ،یکم جنوری:فلسطین کے علاقے غزہ کی باقاعدہ عدالتوں کے سامنے پچھلے سالوں میں 111,000 سے زیادہ مقدمات لائے گئے۔ قانون کے مطابق یہ تمام کیسزحل طلب ہیں۔ غزہ میں عدالتوں میں کیسز کی بھرمار ہے مگرعدالتوں میں ججوں کی تعداد کیسز کے اعتبار سیآٹیمیں نمک کے برابر بھی نہیں۔عدالتوں کے سامنے برسوں سے قانونی چارہ جوئی کے تنازعات کا جمع ہونا سال بہ سال ایک بڑھتا ہوا بحران بن چکا ہے جس سے غزہ کے باشندوں کے سیاسی اور معاشی بحرانوں کے ریکارڈ میں اضافہ ہوا۔ اس مسئلے نے فلسطینی عدلیہ پر اعتماد کو مجروح کیا۔’’مقدمہ کا دم گھٹنے‘‘ کے رجحان کی نمائندگی غزہ کے ججوں کی جانب سے گذشتہ ایک سال کے دوران عدالتی سیشنوں کے دوران دائر مقدمات کا فیصلہ کرنے میں ناکامی اور انہیں دوسرے سالوں میں منتقل کرنے کی صورت میں کی جاتی ہے، جسے “طویل قانونی چارہ جوئی” کہا جاتا ہے۔ اس رجحان میں قانونی اور آئینی تنازعات جس کی وجہ کیسز کا بہت زیادہ ہجوم ہو گیا ہے۔عدالتی اداروں کے سامنے فریقین کے تنازعات کی فائلیں اور اس سے ان شہریوں پر منفی اثر پڑتا ہے جنہوں نے قانون کو ہاتھ سے لینے یا اسے قبیلے کے طریقے سے حل کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔فلسطین میں قانونی نظام عدالتی اختیار کی پیروی کرتا ہے اور اسے باقاعدہ عدلیہ میں تقسیم کیا گیا ہے جو آئین کے مطابق قانون کی شرائط سے نمٹتی ہے۔ قانون ساز کونسل کی طرف سے جاری کی جاتی ہے۔غزہ میں سپریم جوڈیشل کونسل کے مطابق باقاعدہ عدالتوں کو سال کے دوران 64,000 سے زائد عدالتی اور تعزیری مقدمات موصول ہوئے ہیں۔فلسطینی ادارہ مرکز (ایک سرکاری ادارہ) کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ کی باقاعدہ عدالتوں میں برسوں سے زیر سماعت مقدمات کی تعداد 111,424 تک پہنچ گئی، جن میں صرف 2021 میں تقریباً 44,000 مقدمات شامل ہیں۔سال بہ سال مقدموں کی منتقلی نے انسانی حقوق کے مراکز میں یہ یقین پیدا کیا کہ یہ معاملہ انصاف تک رسائی کے حق میں رکاوٹ ہے۔ میزان سینٹر فار ہیومن رائٹس کا خیال ہے کہ قانونی چارہ جوئی کی مدت شہریوں اور عدالتوں کے درمیان عدم اعتماد کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ادارے کا کہنا تھا کہ وکلاء اور مدعی کے نقطہ نظر سے تمام اشارے اور اعداد و شمار قانونی چارہ جوئی کی طوالت کی نشاندہی کرتے ہیں اور یہ انصاف تک رسائی کے حق میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے شہری قانون اور عدالت سے دور ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے مسائل جرگوں میں حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔غزہ میں ’’مسائل کا دم گھٹنے‘‘ کے رجحان کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔ عدلیہ میں کمیونیکیشن آفیشل کونسلر ایہاب عرفات بتاتے ہیں کہ ’’باقاعدہ عدالتیں دیوانی، تجارتی، ٹیکس اور فوجداری تنازعات اور یہاں تک کہ حکومت اور افراد کے درمیان تنازعات کو بھی نمٹاتی ہیں اور اس کی وجہ سے ججوں کے سامنے بڑی تعداد میں فائلیں لائی جاتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس صرف 82 جج ہیں جو 23 لاکھ شہریوں کے معاملات کو چلاتے ہیں، جو کہ بہت سے ممالک میں ناممکن ہے۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق ہر 5000 افراد کے لیے ایک جج ہونا چاہیے اور غزہ میں ہر 25,000 افراد پرایک جج ہے۔