Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 14th Jan.
یروشلم،14جنوری:فلسطینی بچوں کی گرفتاریوں اور ان پر اسرائیلی فورسز کے تشدد نے فلسطینی بچوں کے لیے خوف کی فضا میں اضافہ کر دیا۔ والدین کو نئی انتہائی قوم پرست حکومت کی موجودگی میں فکر مندی نے گھیر لیا۔پچھلے سال ایسے سینکڑوں واقعات پیش آئے جن میں پولیس یا دوسری اسرائیلی فورسز نے بغیر وارنٹ یا سمن کے اچانک گرفتار کیا اور ماؤں کے سامنے تشدد کرتے رہے۔اسرائیلی این جی او ‘ھامو کیڈ ‘ نے ایسے بہیمانہ واقعات پر عدالت سے رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ 300 واقعات میں بغیر سمن اور وارنٹ کے فلسطینی بچوں اور نوجوانوں کو اسرائیلی فوج یا پولیس نے اٹھایا تھا۔پولیس حکام کے مطابق انہیں اس امر کا حق ہے کہ جب چاہیں اور سمن کے بغیر بھی ان کو اٹھا لیں۔ این جی او کے مطابق ان فلسطینیوں بچوں کو اس طرح گرفتار کرنا خلاف قانون ہے۔قانون کے مطابق ان کم سن بچوں نے اگر کوئی جرم کیا ہے تو بھی ان کے والدین سے کہا جائے گا کہ وہ اپنے بچوں کو تفتیش کے لیے ساتھ لے کر آئیں۔ ‘ھامو کیڈ ‘ کے مطابق اس قانون کے حوالے سے اسرائیلی پولیس نے عدالت میں تو یہ بتایا کہ اس قانون کی پابندی کی جاتی ہے۔مگر جب اعداد و شمار سامنے آئے تو ایسے واقعات چار پانچ سے زیادہ نہ تھے۔ باقی سینکڑوں کی تعداد میں ہونے والے واقعات میں والدین کو اپنے بچوں کو کبھی بھی تفتیش کے لیے لانے کا نہیں کہا گیا تھا۔کئی زیر حراست لیے گئے بچوں نے بتایا ہے کہ انہیں صرف اس لیے حراست میں لیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ ان سے ہمسایوں کے بارے میں معلومات لی جا سکیں۔15 سالہ یوسف کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اپنے گھر میں رات کے تین بجے سو رہا تھا۔ لیکن جب اسے ہوش آیا تو وہ فرش پر پڑا تھا اور اسرائیلی اہلکار اسے گھونسوں اور لاتوں سے مار رہے تھے۔ چیخ رہے تھے اور گالیاں دے رہے تھے۔ ‘یوسف کے مطابق ایک اسرائیلی نے اپنے بندوق میری ماں کے سینے پر رکھی اور دھکیلتے ہوئے اسے سونے میں کمرے میں بند کر دیا کہ وہ مجھے تشد د سے بچانے کے لیے گریہ زاری کر رہی تھی۔’جب یوسف کو گرفتار کیا گیا تو اس نے بغیر بازو کی بنیان پہن رکھی تھی جبکہ اس کے پاس اس کا نظر کا چشمہ بھی نہیں تھا۔ یوسف نے کہا ‘میں اس رات کی خوفناکی کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ میں آج بھی جب اس کمرے میں سونے جاتا ہوں تو مجھے اسرائیلیوں کی خوفناک آوازیں سنائی دیتی ہیں۔’یوسف نے اپنے کمرے میں اپنے بھائی وائل کی تصاویر لگا رکھی ہیں، جو آج بھی اسرائیلی حراست میں ہے۔واضح رہے سال 2022 کے دوراان اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے سے سینکڑوں کی تعداد میں فلسطینی نوجوانوں اور بچوں کو حراست میں لیا۔ مگر ان کی گرفتاری سے قبل کسی قسم کے سمن جاری نہ کیے گئے۔اسرائیلی این جی او ‘ھاموکیڈ ‘ کے مطابق ان گرفتاریوں میں سے غالب تعداد ایسے بچوں کی تھی جنہیں اسرائیلی فوج نے پہلے سے منصوبہ بندی کے ساتھ گرفتار کیا تھا۔بچوں کو گھروں سے سوتے ہوئے اٹھا لیا جاتا ہے۔ انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے علاوہ بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے، حتیٰ کہ سونے اور بیت الخلا تک جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔کئی ایسے مناظر بھی ہیں کہ ماؤں کے ساتھ گلی یا بازار میں جاتے بچوں کو ماؤں سے زبردستی چھیننے کی کوشش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ انہیں گرفتار کرنا ہے۔اس دوران بچوں اور ماؤں دونوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بچوں سے تفتیش کرنے کے قانونی طریقہ کی بار بار خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ڈیفینس فار چلڈرن انٹر نیشنل کے اکاونٹیبلٹی پروگرام کے ڈائریکٹر عاید ابو اقتیش نے اس بارے میں کہا ہے ‘تشدد فلسطینی بچوں سے تفتیش اس فلسفے کے تحت تشدد کر کے کی جاتی ہے کہ اس طرح فلسطینی بچے تھک جاتے ہیں اور خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے یوسف نامی بچے کی گرفتاری پر تبصرہ نہیں کیا تاہم یہ کہا کہ اس کا بھائی وائل مالی جرائم میں ملوث ہے۔فلسطینی شہر نابلس میں بھی اسی نوعیت کے واقعات آئے روز پیش آ رہے ہیں۔ فلسطینی بچوں اور نوجوانوں کو بے دریغ طریقے سے نابلس میں بھی گرفتار کیا جا رہا ہے۔بتسلیم نامی عبرانی این جی او کے مطابق 2022 کے دوران اسرائیلی فورسز نے 146 فلسطینیوں کو شہید کیا۔ جن میں 34 بچے بھی شامل ہیں۔