Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 6th Jan.
تہران،6جنوری:ایرانی انسانی حقوق کی تنظیموں نے جمعرات کو اعلان کیا کہ ایران میں سیکورٹی فورسز نے ملک کو ہلا دینے والے مظاہروں کو دبانے کے ایک حصے کے طور پر مشہور شیف نواب ابراہیمی کو گرفتار کر لیا ہے۔ابراہیمی کو سوشل میڈیا پر لاکھوں لوگ فالو کرتیہیں۔انسانی حقوق کی تنظیم “ھرانا” نے کہا کہ ابراہیمی کو تہران کی ایوین جیل لے جایا گیا۔فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ انسٹا گرام پر 2.7 ملین فالوورز والے شیف کو کیوں گرفتار کیا گیا تاہم ان کی ایسی ویڈیوز دیکھی گئیں جس میں وہ بتاتے ہیں کہ روایتی ایرانی کھانوں کی انتہائی لذیذ ترکیبیں کیسے تیار کی جاتی ہیں۔انٹرنیٹ پر متحرک رہنے والے افراد نے کہا ہے کہ نواب ابراہیمی کی گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب انہوں نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو کلپ پوسٹ کیا جس میں کہا گیا تھا کہ کباب سے ملتی جلتی روایتی ایرانی ڈش کٹلیٹ ” تیار کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ اس ڈش میں خاص طور پر قیمہ استعمال کیا جاتا ہے۔ان کے مطابق ابراہیمی نے یہ نسخہ اسی دن شائع کیا تھا جب تہران نے تین سال قبل عراق میں امریکی فضائی حملے میں پاسداران انقلاب میں قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کے قتل کی یاد منائی تھی۔ہر سال سلیمانی کے قتل کی برسی کے موقع پر ایرانی حکومت کے مخالفین کٹلیٹ ڈش کی تصاویر شائع کرتے رہتے ہیں جس میں اس جنرل کو امریکی ڈرون کے حملے میں قتل کرنے کے انداز کا حوالہ دیا جاتا ہے۔نیو یارک میں مرکز رکھنے والی ایرانی تنظیم ’’ مرکزبرائے انسانی حقوق‘‘ نے کہا کہ معروف شیف نواب ابراہیمی کو تہران میں گرفتار کیا گیا۔سوشل میڈیا صارفین نے کہا ہے کہ ان کی گرفتاری کا تعلق انسٹاگرام پر ان کی اس وضاحت سے ہے کہ “روایتی کباب ڈش کیسے تیار کریں”۔انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم نے اس ترکیب کے حوالے سے کوئی اور تفصیلات فراہم نہیں کیں اور ابراہیمی کا انسٹاگرام اکاؤنٹ مذکورہ ویڈیو دیکھنے کے لیے اب دستیاب نہیں ہے۔ٹویٹر پر ایک ٹویٹ میں ایرانی ڈائریکٹر اور فوٹوگرافر نیک یوسفی جنہیں اکتوبر میں گرفتار کیا گیا اور بعد میں رہا کردیا گیا تھا نے کہا کہ ابراہیمی کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور تہران میں ان کا کیفے “نوج” کو تالا لگا دیا گیا ہے۔ایک ایسے وقت میں جب ایرانی حکام قاسم سلیمانی کے قتل کی یاد میں مختلف تقریبات کا اہتمام کر رہے تھے ان کے مخالفین انٹرنیٹ پر مختلف ایرانی علاقوں میں مظاہرین کی ویڈیوز اور تصاویر شائع کر رہے تھے جن پر جنرل قاسم سلیمانی کی تصویر والے بینرز کو آگ لگائی جا رہی تھی۔ایران میں 16 ستمبر سے احتجاجی تحریک شروع ہے۔ اس روزاخلاقی پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونیوالی مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہی موت ہوگئی تھی۔ مظاہروں کے دوران سینکڑوں افراد مارے گئے، جن میں سیکورٹی فورسز کے درجنوں ارکان بھی شامل ہیں۔ مظاہرین حکام کے خلاف نعرے بازی کر رہے ہیں۔ ہزاروں افراد کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔ ایرانی حکومت مظاہرین کو فسادی قرار دے رہی ہے۔