Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 8th Jan.
ریاض فردوسی
دینی مدارس میں عصری تعلیم کے مشمولات آجکل ہر طرف سے آواز اٹھ رہی ہے کہ دینی مدرسوں میں عصری تعلیم شروع کی جائے،اخبارات اور رسائل میں لکھنے والے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ مدرسہ میں جو بچے دینیات کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں انہیں بھی عصری تعلیم کے مضامین سے تعارف کرایا جائے،اس کے ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جو بچے اسکول اور کالج میں پڑھ رہے ہیں ان کے والدین انہیں بھی دین کا تعلیم دیں تاکہ گمراہی سے بچ پائے،ایسے بہت سے گارجین ہیں جو اپنے بچوں کو دینیات کی تعلیم دینے کے لئے گھر پر مدرس کا انتطام کئے ہوتے ہیں یا اپنے بچوں کو دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے مدرسوں میں بھیجتے ہیں۔دینی مدارس کا قیام جہاں کہیں بھی کیا گیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ بچوں کو عربی، فارسی اردو یا کوئی بھی علاقائی زبان کو سکھایا جائے،اس کے ساتھ قرآن،حدیث فقہ اور دیگر متعلقہ علوم انہیں سکھایا جائے،یہاں سے پڑھ کر جو بچے فارغ ہوتے ہیں وہ حافظ قرآن، علم حدیث کے ماہر، مفتی،علامہ بنتے ہیں اور ان کا کام علم دین کا فروغ اور اشاعت کرنا ہے اور قوم کے لوگوں کو علم دین سے متعلق ضروریات کو پورا کرنا ہے،مدرسہ کے تعلیمی نصاب میں اس بات کو شامل نہیں کیا گیا ہے کہ بچوں کو الجبرا،سود پر مبنی حساب،جیومیٹری، مینسوریشن،سکھایا جائے یا یہ بتایا جائے کہ جغرافیہ میں دھان کی کھیتی کے لیے کیسی مٹی کتنا درجہ حرارت اور کتنی بارش چاہئیے،اور تاریخ میں دو جنگ عظیم اور سائنس میں نیوٹن کے حرکت کے کلیات،ایٹم اور مولیکیول میں فرق وغیرہ بتایا جائے،کیونکہ یہ تمام علوم مدرسہ کے نصاب کے ساتھ کوئی ربط اور تعلق نہیں رکھتا ہے۔اسکول ،کالج اور یونیورسٹی کے قیام کا مقصد اس لئے کیا گیا ہے کہ یہاں سے طلباء حصول علم کے بعد ڈاکٹر، انجینئر،وکیل،جج،کالج اور یونیورسٹی کا لیکچرر،پولس،کلرک وغیرہ بن سکیں اور لوگوں کی دنیاوی ضرورتوں کو پورا کر سکیں،جب مدرسہ اور اسکول کے قیام کے مقاصد اور اغراض علیحدہ ہیں تو ان تعلیمی درس گاہوں کے نصاب بھی علیحدہ ہی ہونگے اور انکے نتائج بھی الگ ہو نگے۔اب تو یہ والدین کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو حافظ قرآن بنانا چاہتے ہیں یا ڈاکٹر انجینئر بنانا چاہتے ہیں۔
9/11 کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا اور جتنے بھی دہشت گرد گرفتار ہوئے، ان میں سے بعض کی شکل وصورت اور حلیہ ایک عالم دین کے طرح نظر آیا،بس بیشتر لوگوں میں ایک غلط تصور تشکیل پا گئی کہ یہ مدرسہ تعلیمی نظام کا نتیجہ ہے اور ان لوگوں نے مدرسے میں عصری تعلیم کے نفاذ کی وکالت شروع کر دی، لیکن ان ہی لوگوں سے یہ سوال پوچھا جائے کہ جن کے گھروں پر CBI اور ED کے چھاپے پرتے ہیں اور غلط راستے سے کمائے ہوے کڑوڑوں روپے ملتے ہیں،تو یہ لوگ جن اسکول کالج یا یونیورسٹی سے پڑھیں ہیں وہاں دینیات کی تعلیم کیوں نہیں دی جاتی،جس سے یہ لوگ خدا کا خوف کھا کر ملک کی دولت چوری نہیں کرتے،آج معاشرہ میں جتنی بھی خرابیاں اور برائیاں ہیں، اس میں ملوث عصری تعلیم گاہوں کے بچے ہی ہوتے ہیں،دینی مدارس کے بچے نہیں۔علم اپنا اطلاق چاہتا ہے غیر دینی تعلیم درسگاہوں سے کوئی ڈاکٹر بن کر اپنے علم کا استعمال مریضوں کو شفاء دینے میں کرتا ہے،تو کوئی وکیل بنکر بے گناہ اور بے قصور وار ملزموں کو آزاد کرانے میںکوشش کرتا ہے۔اسی طرح دینی مدارس سے فارغ ہونے کے بعد کوئی مسجد کا امام بن جاتا ہے تو کوئی نامور عالم دین بن کر دین کی تبلیغ میں لگ جاتا ہے۔تعلیمی اداروں کی نوعیت چاہے جو بھی ہو اس سے فارغ ہو کر سبھی لوگ اپنے اپنے متعلقہ میدانوں میں کام کرنے لگ جاتے ہیں۔
دینی مدارس میں عصری تعلیم شروع کرنے سے طلبا ء کو بہت ساری دشواریوں کا سامنا کرنا پر سکتا ہے، مثلاً بچوں کے اوپر فاضل کتابوں کا بوجھ پر یگا،مروجہ نصاب کی کتابیں جو اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے،ان کتابوں کا دینی کتابوں کے ساتھ کوئی ربط اور تعلق نہیں ہے،یہ عصری کتابیں کسی بھی طرح سے علم دین کے سیکھنے میں معاون اور مددگار ثابت نہیں ہوں گے، جس سے بچوں کے اندر ان کتابوں کے لئے دلچسپی نہیں رہیگی، چونکہ یہ دینی مدارس سرکار کی طرف سے منظور شدہ نہیں ہوتے۔ایسے دینی مدارس میں عصری تعلیم شروع بھی کر دی جائے تو ان مدرسوں کے بچے کسی بھی پرایویٹ یا سرکاری ملازمت کے لئے مقابلہ ذاتی امتحان میں نہیں بیٹھ سکتے کیونکہ ان مدرسوں سے جاری اسناد کو حکومت تسلیم نہیں کرتی۔مدرسہ میں عصری تعلیم سے مراد یہ ہے کہ مدرسہ میں جو بچے حفظ کر رہے ہیں،جو حدیث کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں،جو فقہ یا علم کلام سیکھ رہے ہیں،ایسے بچوں کو عصری مضامین سے بھی تعارف کرایا جائے،اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مدرسہ کے کیمپس میں الگ سے ایک متوازی تعلیمی نظام شروع کی جائے اور وہاں بچوں کو اسکول کے نصابی کتابوں کے ساتھ دین کی تعلیم دی جائے،اس سے ان پرائمری اسکولوں کے وجود کے مٹ جانے کا خطرہ بڑھ جائے گا، جہاں پہلے سے ہی بچوں کی تعداد کم ہے اور انگلش میڈیم اسکولوں کے کھلنے سے مزید کم ہو گئی ہے۔اس پر سے خارجی مدرسوں میں الگ سے متوازی اسکول کھولا جاتا ہے تو اور مزید پر ائمری اسکولوں میں بچوں کی تعداد کم ہو جائے گی جس کے نتیجہ میں بعد میں حکومت تین چار اسکولوں کو ضم کرکے ایک اسکول بنا دیگی،جس کا اثر نوکری پر بھی پر سکتا ہے، عصری تعلیم حاصل کرنے والے بچہ مدرسہ کے مدرس سے کوئی ایک معین وقت پر دینیات کا تعلیم حاصل کر سکتا ہے۔ان تمام باتوں کے پیش نظر اب ماہرین علم کو فیصلہ کرنا ہے کہ دینی مدارس میں دینیات کی حصول تعلیم میں مشغول بچوں کے لئے عصری تعلیم فراہم کرنا مناسب ہے یا نہیں؟
میرے خیال سے مدرسہ میں عصری تعلیم شروع کی جا سکتی ہے،لیکن اس کے لئے مدرسہ نصاب کو بہت ہی سوجھ بوجھ سے مرتب کرنا ہوگا،جس سے علم دین کے ساتھ اس کا ربط اور تعلق پیدا کیا جا سکے،یعنی ایک ہم اہنگ اور Integrated Syllabus تیار کرنا ہوگا۔اسکولوں میں جغرافیہ،تاریخ،حساب،سائنس علم سیاست کتابیںپڑھائی جاتی ہیں،ان ہی کتابوں سے چنندہ مضامین لیکر مدرسہ تعلیم کے لئے الگ سے عصری نصاب مرتب کرنا ہوگا۔میں اس کی چند مثالیں پیش کرتا ہوں: قرآن مجید میں سورج،چاند،کوکب،شہاب الثاقب کا ذکر ہے تو مدرسہ کے بچوں کو ان اجرام فلکیات کے بارے میں علم دیا جا سکتا ہے۔ہم بچوں کو زمین سے متعلق تفصیلی معلومات فراہم کر سکتے ہیں۔قرآن مجید میں چاند کی منزلیں بیان کی گئی ہیں۔اس حساب سے بچوں کو چاند کی مختلف مراحل (Different Phases of) کے بارے میں بتایا جا سکتا ہے۔قرآن مجید میں کشتی اور جہاز کا دریاوں اور سمندروں میں چلنے کا بیان ہے، ہم بچوں کو بتا سکتے ہیں کہ کس طرح یہ کشتیاں اور جہازیں Law of Floatation یعنی تیراؤ کے کلیے کے تحت چلتے ہیں۔قرآن مجید میں بارش کے نزول کا ذکر ہے۔ بچوں کو بتایا جا سکتا ہے کہ بارش کیسے ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں دو سمندروں کے پانی کا ایک ساتھ بہنے اور آپس میں نہیں ملنے کا ذکر ہے اس کی بہت ساری مثالیں بچوں کو دیا جا سکتا ہے۔
قرآن مجید میں موتی اور مونگا کا ذکر ہے،موتی اور مونگا کیسے بنتا ہے اور موتی Phylum Mollusca اور مونگا Phylum Cnidaria کے ماتحت آتے ہیں وغیرہ بتایا جا سکتا ہے۔
قرآن مجید میں ہوا،بادل اور پانی کا ذکر موجود ہے۔ بچوں کو ہوا اور پانی کے خصوصیات اور ہوا اور پانی کے بالائی،ذیلی اور بغلی دباؤ کے بارے میں بتایا جا سکتا ہے۔یہ بھی بتایا جا سکتا ہے کہ بادل کیسے بنتے ہیں اور بادل کی کتنے اقسام ہیں۔قرآن مجید میں انسانی تخلیق کے مختلف مراحل کا ذکر ہے،اس ضمن میں بچوں کو Reproduction یعنی تولید کا علم دیا جا سکتا ہے۔
حدیث میں سورج گرہن کا ذکر ملتا ہے،اسی دن حضور ﷺ کے صاحب زادے ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا تھا،لوگوں نے سمجھا شائد سورج گرہن کی وجہ سے ایسا ہوا ہے،لیکن آپ ﷺ نے اس باطل عقیدہ کو ردکیا اور فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں یہ کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے بے نور نہیں ہوتے۔
بچوں کو بتایا جا سکتا ہے کہ سورج گرہن اور چاند گرہن دونوں Formation of Shadow یعنی سایہ بننے کی دو اچھی مثالیں ہیں اس کا تعلق زمین پر یا انسانی زندگی میں مصیبت آنے سے بالکل نہیں ہے اور نہ ہی یہ کہ سورج اور چاند پر کوئی مصیبت آیا ہے۔
اسی طرح علم سیاست میں طلباء نظم اجتماعی کے مختلف شکلیں جمہوریت،خلافت،آمریت،ملوکیت وغیرہ کا تقابلی مطالعہ کر سکتے ہیں۔جدید دور میں مختلف قسم کے ازم مثلاً کمیونزم، سوشلزم، سیکولرزم، کیپلٹزم وجود پزیر ہو چکے ہیں اور ہونے ہیں ان کو بھی مدرسہ نصاب میں شامل کیا جا سکتا ہے اور طلباء کو انکے خوبیاں اور خرابیاں سے واقف کرایا جا سکتا ہے۔اس طرح کی اور بھی مثالیں دی جا سکتی ہیں، مختصر میں یہ کہنا ہے کہ مدرسوں میں عصری تعلیم کا نصاب اس طرح سے مرتب کیا جائے جو علم دینیات کے ساتھ Connected ہو، بیجوڑ اور بے ربط نہ ہو۔اہم بات ہے کہ جتنی بھی دور جدید کی ایجادات ہوئی ہے وہ سب قرآن کریم کے نزول کے بعد ہی ہوئی ہے۔ایک بہترین عالم ہی بہترین وکیل،بہترین ڈاکٹر ،بہترین پروفیسر،ماہرفلکیات اور دیگر علوم کاماہرین ہوگا۔تعجب ہے کہ دنیا کتاب اللہ پر تحقیق کرکے،غوروفکر کرکے آسمان وزمین کے رازوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور ہم؟
9968012976