منڈل مسیحا شرد یادو کو آخری سلام

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 13th Jan.

ملک میں سماجواد کی روایت کی ایک بڑی کڑی ٹوٹ گئی ہے۔ سماجوادی نظریہ کے ایک سینئر اور مضبوط رہنما شرد یادو اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔12 جنوری کی رات19:10 بجے انھوں نے آخری سانس لی۔ وہ کئی دنوں سے بیمار تھے۔ جمعرات کو جب ان کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تھی تب انھیں گروگرام کے فورٹس اسپتال میں ایڈمٹ کرایا گیا تھا۔گرچہ شرد یادو کا آبائی وطن مدھیہ پردیش تھا لیکن سیاسی طور پر وہ بہار سے بہت جڑے ہوئے تھے۔جیسے ہی ان کے انتقال کی خبر عام ہوئی بہار کے سیاسی اور سماجی حلقوں میںسوگ کی لہر ڈوڑ گئی۔کل پورا بہار سوگ میں ڈوبا رہا۔ان کی آتما کی شانتی کے لئے لوگ دعا کرتے رہے۔
آج کی نسل شاید شرد یادو کے سیاسی قد سے واقف نہیں ہو ، لیکن انہیں غیر کانگریسی حکومتوں میں ایک طاقتور لیڈر سمجھا جاتا تھا، حالانکہ انھیں کبھی کسی مضبوط وزارت کی کمان سنبھالنے کا موقع نہیں مل سکا۔ اپنے سیاسی سفر میںان سب سے بڑی طاقت ہمیشہ ان کی کمزوری ثابت ہوئی۔ انھوںنے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز مدھیہ پردیش کے ایک متوسط گھرانے سے کیاتھا۔ ان کا کیریئر جبل پور سے شروع ہوا اور یوپی کے راستے بہار پہنچا۔ وہ مزاجاََ مست قلندر تھے۔شاید اسی کمزوری کی وجہ سے وہ کسی سیٹ کو اپنے لئے مخصوص نہیں کر سکے۔
شرد یادو اپنے ہم عصر سماجوادی لیڈروں میں سب سے سینئر تھے۔ اسی لیے لالو پرساد یادو، نتیش کمار، رام بلاس پاسوان اور جارج فرنانڈس انھیں بڑے بھائی کہتے تھے۔ لالو پرساد یادوکے سیاسی کیریئر میں شرد یادو نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن یہ مرحلہ شرد یادو کے کیریئر میں بہت بعد میں آیا۔شرد یادو جولائی 1947 میں مدھیہ پردیش کے ہوشنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ شرد یادو جبل پور انجینئرنگ کالج کے گولڈ میڈلسٹ تھے، لیکن ان کی بڑی پہچان یہ تھی کہ وہ لوہیا اور جے پی کے سوشلسٹ خیالات سے متاثر تھے۔ جے پرکاش نارائن کی طلبہ تحریک کا بھارت کی سیاست پر کیا اثر پڑنے والا تھا، اس کی پہلی جھلک 1974 میں نظر آئی تھی۔ طلبہ تحریک کے بعد پہلا امیدوار جسے جے پرکاش نارائن نے’’ ہلدھر کسان ‘‘کے نشان پر الیکشن لڑنے کے لیے بنایا وہ شرد یادو ہی تھے۔ 27 سالہ شرد یادو اس وقت جبل پور یونیورسٹی طلبہ یونین کے صدر تھے اور طلبہ تحریک کی وجہ سے جیل میں تھے۔ جیل سے ہی جبل پور کا الیکشن جیتا تھا۔ 1977 میں جنتا پارٹی کے طوفان کی پہلی جھلک لوگوں کو شرد یادو کے انتخاب کے بعد ہی نظر آئی تھی۔ اس وقت شرد یادو سوشلسٹ سیاست میں ایک عظیم امکان کے طور پر ابھرے تھے۔ 1976 میں ایمرجنسی کے دوران اندرا گاندھی نے لوک سبھا کی میعاد کو پانچ سال سے بدل کر چھ سال کر دیا تھا۔ صرف دو ممبران پارلیمنٹ نے اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے لوک سبھا کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا، ایک مدھو لیمے اور دوسرے شرد یادو تھے۔کہتے ہیں کہ شرد یادو نے رام ولاس پاسوان کے ساتھ مل کر وی پی سنگھ سے منڈل کمیشن کو نافذ کیا ،جس کی وجہ سے کم از کم شمالی بھارت کی سیاست بہت حد تک بدل گئی۔
یہیں سےشرد یادو کی شبیہ منڈل کے مسیحا لیڈر کے طور پر بنی۔اس سے قبل انہوں نے لالو پرساد یادو کو بہار میں اپوزیشن لیڈر بننے میں مدد کی تھی۔ 1990 میں جب بہار میں وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے جنتا دل کا دعویٰ سامنے آیا تو وی پی سنگھ کے امیدوار رام سندر داس کو شکست دے کر لالو پرساد یادو کو بہار کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ اس وقت تک شرد یادو ہندی بیلٹ میں اپنا قد اونچا کر چکے تھے۔ وہ بہت ہی با صلاحیت سیاست داں تھے۔ ان کی شبیہ بھی بے داغ تھی۔ان پر ایک معاملے میں پانچ لاکھ روپے لینے کا الزام بھی تھا، جس میں عدالت نے انہیں بری بھی کر دیا تھا۔ حالانکہ اس الزام کے بعد انہوں نے اخلاقیات کی بنیاد پر لوک سبھا سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
شرد یادو بے لاگ لپٹ بولنے والے لیڈر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ پارلیمنٹ کے اندر خواتین کے لیے 33 فیصد ریزرویشن کے معاملے پر انھوں نے اعلیٰ ذات کی خواتین کے لیے قابل اعتراض الفاظ کہے تھے۔ وہ ٹیلی ویژن چینل والوں کے لیے’’ ڈبہ والے‘‘ کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ انہیں تاریخ سے خاص دلچسپی تھی۔ لیکن وہ ہمیشہ اس پر یقین رکھتے تھے، جو دیکھتے تھے۔ویسے شرد یادو کو ایک ایسے سیاستدان کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، جنہوں نے کئی حکومتیں بنانے اور گرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جن سے ان کی دوستی تھی، وقت آنے پر ان سے بھی ہمدردانہ دشمنی کی۔ سنگاپور میں زیر علاج لالو پرساد یادو نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ ان کے ساتھ لڑائی جھگڑا ہوا کرتا تھا لیکن اس سے باہمی تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ آج شرد یادو کے جسد خاکی کو مدھیہ پردیش کے نرمدا پورم ضلع میں واقع ان کے آبائی گاؤں میں پانچ عناصر کے حوالے کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد منڈل مسیحا کی صرف یادیں ہی باقی رہ جائیں گی۔
********************