Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 5th Jan.
نئی دہلی،5جنوری:دہلی وقف بورڈ میں جاری بحران مزید گہرا ہوتا جارہاہے اور اس درمیان وقف بورڈ کے ممبران اور چیف ایگزیکیٹیو افسر بورڈ میں جاری بحران سے بے پرواہ اور لاتعلق نظر آرہے ہیں۔ایسا لگ رہاہے جیسے مسلمانوں کی سینکڑوں قیمتی وقف املاک کا نگہبان یہ ادارہ آج خود یتیم ہے اور اسے خود نگہبانی کی ضرورت ہے۔دراصل حالات کچھ ایسے ہی ہوگئے ہیں،حکومت نے جن لوگوں کے کاندھوں پر دہلی وقف بورڈ کی ذمہ داری ڈالی تھی آج وہی سب ممبران اپنے مابین اختلافات اور ذاتی مفادات کی خاطر وقف بورڈ کے کاموں سے بالکل لاپرواہ اور لاتعلق نظر آرہے ہیں اور ایک طرح سے وقف بورڈ سے انہوں نے خود کو الگ کرلیا ہے حالانکہ خبر یہ بھی ہے کہ بورڈ ممبران کے اس رویہ کے پیچھے ایجنسیوں کا ڈر بھی ہے اور بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان کے خلاف جاری ایجنسیوں کی جانچ کی وجہ سے بورڈ کے یہ ممبران خواہی ناخواہی اس قدر خوف زدہ ہوگئے ہیں کہ انھیں خواب میں بھی ایجنسیوں کا ڈنڈا نظر آنے لگا ہے اس لئے وہ اپنی ان آئنی ذمہ داریوں سے بھی بھاگ رہے ہیں جو قانون اور حکومت نے ان کے کاندھوں پر ڈالی تھی اور اسی خوف کی وجہ سے کہ لیجئے یا اندرونی اختلافات اور ذاتی مفادکا حوالہ دیدیجئے ان ممبران نے گزشتہ ایک سال سے بورڈ کی میٹنگ تک میں حصہ نہیں لیا ہے اور اب جبکہ کچھ دن قبل چیف ایگزیکیوٹیو افسر نے ایک خط کے ذریعہ بورڈ میٹنگ کے لئے تمام بورڈ ممبران سے رائے مشورہ مانگا تھا تو سوائے دو ممبران امانت اللہ خان اور رضیہ سلطانہ کے علاوہ کسی نے سی ای او کے لیٹر کا جواب تک دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ممبران نا تو بورڈ سے استعفی دیتے ہیں اور نہ ہی بورڈ کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں جس کی وجہ سے بورڈ کے تمام اہم کام بشمول نئی کرایہ داریاں وغیرہ سب رک گئے ہیں اور بورڈ عملا مفلوج بن کر رہ گیا ہے۔طویل عرصہ سے بورڈ میٹنگ نہ ہونے کی وجہ سے ایک طرف جہاں وقف بورڈ کے ملازمین کی تنخواہوں کا مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آرہاہے وہیں بہت سارے تربیت یافتہ ملازمین ایسے ہیں عنقریب جن کا کانٹریکٹ ختم ہوجائے گا جس کے بعد بورڈ میں ہونے والے اکثر کام جیسے جائداد کا سروے اور کرایہ داریاں،ناجائز قبضوں کے خلاف کارروائیاں سب متاثر ہوجائیں گی اور وقف بورڈ بہت سارے ایسے تربیت یافتہ ملازمین سے محروم ہوجائے گا جنہوں نے نا صرف کام سمجھا ہوا ہے بلکہ وہ کئی مرتبہ اپنی جان جوکھم میں ڈالکر وقف جائدادوں کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔وقف بورڈ میں جاری اسی بحران اور اپنی تنخواہوں کی ادائگی کے مسئلہ کو لیکروقف بورڈ کے ملازمین گزشتہ کئی روز سے بورڈ دفتر کے باہر ہی دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں اور آج ان کی ہڑتال اور احتجاج کا آٹھواں دن ہے جبکہ اس سے قبل کئی روز سے تمام ملازمین پین ڈاؤن اسٹرائک پر تھے تاہم اس درمیان سوائے بورڈ چیئرمین امانت اللہ خان اور بورڈ ممبر رضیہ سلطانہ کے علاوہ کوئی ان سے ملنے اور ان کا حال چال جاننے نہیں آیا۔جمعہ کے روز امانت اللہ خان مہینوں بعد بورڈ دفتر تشریف لائے اور احتجاج کر رہے ملازمین اور ائمہ حضرات سے ملاقات کے دوران انہوں نے بتایا کہ وہ اس وقت محض ایک سگنیچر اتھارٹی ہیں اور انہوں نے ائمہ اور مؤذنین حضرات اور بورڈ ملازمین کی تنخواہوں کی فائل پر دستخط کر دیئے ہیں جبکہ دوسرے دستخط بورڈ کے سی ای او کو کرنے ہیں مگر وہ کس کے اشارے پر اور کس دباؤ میں دستخط نہیں کر رہے ہیں اس کا جواب وہ خود دیں گے اور اس طرح گیند وقف بورڈ کے سی ای او کے پالے میں ڈالکر چلے گئے۔وقف بورڈ کے ملازمین آج اپنے انھیں تمام مطالبات کو لیکر ڈویزنل کمشنر آفس احتجاج کرنے پہونچے اور 8نکات پر مشتمل ایک میمورنڈم ڈویزنل کمشنر آفس میں جمع کرایا جس میں تمام بورڈ ملازمین کی تنخواہوں کی ترجیحی بنیاد پر ادائگی کے ساتھ بورڈ میں مستقل چیف ایگزیکیوٹیو افسر اور اسسٹنٹ اکاؤنٹ افسر کی تعیناتی کے علاوہ دیگر کئی اہم مطالبات شامل تھے۔جملہ بورڈ اسٹاف کی جانب سے جاری اس میمورنڈم میں دخواست کی گئی ہے کہ ڈویزنل کمشنروقف بورڈ میں ممبران کوماہانہ بورڈ میٹنگ منعقد کرنے اوراور بورڈ مسائل میں دلچسپی نہ رکھنے اور اپنی آئنی ذمہ داریوں کو ادا نہ کرنے والے بورڈ ممبران کے خلاف سخت قانونی ایکشن لیا جائے۔دوسری جانب کئی مہینوں سے وقف بورڈ سے ڈائریکٹ وابستہ اور غیر وابستہ ائمہ اور موذنین حضرات کو بھی تنخواہ نہیں ملی ہے جسے تقریبا 6ماہ ہوگئے ہیں اور مدرسہ عالیہ عربیہ فتحپوری کے اساتذہ کی تنخواہیں اور طلبہ کا وظیفہ اور بیواؤں اور ضرورتمندوں کو بورڈ سے ملنے والاوظیفہ بھی مہینوں سے ادا نہیں کیاگیا ہے،بتایا جارہاہے کہ ان سب کا ایک ہی حل ہے کہ بورڈ ممبران کی میٹنگ ہواور تمام ممبران اکثریت کی بنیاد پرفیصلہ لیکر تمام زیر التوا مسئلوں کو نمٹائیں مگر ایسا محسوس ہورہاہے کہ بورڈ کو عملا مفلوج کرنے اور بورڈ کو ختم کرانے کی درپردہ مبینہ سازش میں کچھ ممبران بھی ملوث ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ بورڈ فعال رہے اور اپنا کام کرے ایسے ناگفتہ بہ حالات میں ایک ہی طریقہ ہے کہ ملت کے اداروں سے محبت رکھنے والے مخلص لوگ امت کے اس قیمتی ادارہ کی حفاظت کے لئے خود آگے آئیں اور مورچہ سنبھالیں۔