Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 4th Jan.
نینی تال،04 جنوری: بی جے پی کی حکومت والی ریاست اتراکھنڈ کے نینی تال ضلع کے مشہور اور تاریخی اہمیت کے حامل قصبہ ہلدوانی میں ہزاروں مسلم کنبوں میں خوف وہراس کا ماحول ہے کیونکہ مقامی انتظامیہ نے مسلم اکثریتی علاقے غفور بستی کے ۴ ہزار ۵۶۳ مکانات کو منہدم کرنے کا نوٹس دیا ہے۔ امکان ہے کہ اس نوٹس کے بعد9 جنوری سے بڑے پیمانے پر انہدامی کارروائی شروع ہو سکتی ہے۔ اسی کے خلاف یہاں کے ہزاروں باشندوں نے شاہین باغ احتجاج کی طرز پر 29 دسمبر سے اپنا احتجاج شروع کردیا ہے۔ ابتدا میں تو کچھ ہی مکانات کے مالکان نے احتجاج شروع کیا تھا لیکن یکم جنوری کے بعد سے یہاں احتجاج کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اوریہاں تقریباً 20ہزار افراد کا مجمع علاقے کے وسط میں آکر سڑکوں پر بیٹھ گیا اور انہدامی کارروائی روکنے کا مطالبہ کررہا ہے۔ واضح رہے کہ ان مکانات کے انہدام سے ایک اندازہ کے مطابق تقریباً ایک لاکھ لوگ براہ راست یا بالراست طریقے سے متاثر ہوں گے۔ دوسری طرف انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ مکانات ۸۷ ایکڑ اراضی پر ریلوے کی زمین پر غیر قانونی طور پر تعمیر کئے گئے ہیں اور اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے حکم پر انہیں منہدم کرنے کے لئے نشانات لگا د ئیے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ ان میں بیشتر مکانات کافی عالیشان ہیں۔جس علاقے میں انہدامی کارروائی کی جانی ہے وہاں ۲ لاکھ سے زائد افراد رہائش پذیر ہیں۔ عدالت کے فیصلے کے خلاف گزشتہ ہفتے ہلدوانی میں احتجاجی مظاہرہ ہوا تھا۔ ہزاروں مرد اور خواتین سڑکوں پر اتر آئے تھے۔ جب اس احتجاج سے بھی بات نہیں بنی تو مقامی افراد کو شاہین باغ کی طرز پر اپنا احتجاج ترتیب دینا پڑا۔مقامی افراد کا کہنا ہے کہ یا تو ہمارے گھر مت اجاڑو یا پھر ہمیں سب سے پہلے متبادل جگہ پربسائو اور اس کے بعد یہاں پر انہدامی کارروائی کرو۔ دوسری طرف اپوزیشن پارٹی کانگریس کے مقامی رکن اسمبلی سُمت ہردیش کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت نے مقدمے کی درست طور پر پیروی نہیں کی ۔اگر وہ اس معاملے میںتھوڑی بھی مداخلت کرتی تو عدالت اتنا سخت فیصلہ نہیں سنا تی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہاں رہنے والے لوگوں کے پاس وہ تمام سرکاری دستاویزات موجود ہیں جو حکومت جاری کرتی ہے لیکن چونکہ یہ لوگ کانگریس کے امیدوار کو کامیاب بناتے رہے ہیں اس لئے انہیں اسی کی سزا دی جارہی ہے۔اس معاملے میںسماج وادی پارٹی، کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران کی جانب سے مشترکہ پٹیشن سپریم کورٹ میں داخل کی گئی ہے جس میں ہائی کورٹ کے مذکورہ فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔ کورٹ نے یہ پٹیشن سماعت کے لئے قبول کرلی ہے اور امکان ہے کہ ۵ جنوری کو اس معاملے میں سماعت کی جائے۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ ہائی کورٹ میں ہماری ایک نہیں سنی گئی اور زمین پر ریلوے کو قبضہ دے دیا گیا حالانکہ یہ ریلوے کی زمین ہے ہی نہیں، یہ تو میونسپل کارپوریشن کی زمین ہے جس پر ہزاروں مسلمان دہائیوں سے بسے ہوئے ہیں۔ ریلوے زبردستی کر رہی ہے، لیکن ہم اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے، ایک انچ زمین اسے لینے نہیں دیں گے۔ کچھ سیاسی پارٹی کے لیڈران بھی اس معاملے میں غفور بستی کے لوگوں کا ساتھ کھل کر دیتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ کانگریس رکن پارلیمنٹ عمران پرتاپ گڑھی نے بھی متاثرین کے انصاف کی لڑائی لڑنے کی بات کہی ہے۔ انہوںنے کہا کہ ۵ جنوری کو سپریم کورٹ میں معاملے پر سماعت ہوگی اور میں ہلدوانی کے لوگوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوگا۔ ہمارے ماہر قانون اور کانگریس کے سینئر لیڈر سلمان خورشید اور وہاں کے مقامی کانگریس لیڈران لوگوں کی قانونی مدد کے لئے تیار ہیں۔آزاد سماج پارٹی کے قومی صدر چندرشیکھر آزاد نے بھی متاثرین کی حمایت میں آواز بلند کی۔ انہوں نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر ایک خبر کا تراشہ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ہلدوانی میں انسانی پہلو کو بھی دیکھنا چا ہئے۔ ہزاروں بچے اپنا اسکول، اپنا گھر بچانے کے لیے دھرنا دے رہے ہیں۔ ریاستی حکومت ہائی کورٹ میں لڑ ہی نہیں پائی۔ وزیر اعظم نے۲۲۰۲ تک بے گھروں کو گھر دینے کا وعدہ کیا تھا، وعدہ تو پورا کیا نہیں اوپر سے بسے بسائے لوگوں کو اجاڑنے لگے۔ سماجوادی پارٹی کے قومی صدر اکھلیش یادو نے تو اس معاملے کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے ایک نمائندہ وفد کی تشکیل کر دی ہے۔