ہاں میں ہاں ملانے کی ضرورت کیا تھی ؟

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 7th Jan.

بہار میں ذات پر مبنی مردم شماری حسب اعلان 7 جنوری سے شروع ہوچکی ہے۔ ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کی تجویز پر تب کل جماعتی اتفاق ہوا تھا،جب ریاست میں بی جے پی ،جے ڈی یو اور دیگر سیاسی جماعتیں ایک ساتھ تھیں۔ حالانکہ اس وقت بھی بی جے پی ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کے حق میں دل سے نہیں تھی۔بی جے پی کو شاید یہ لگ رہا تھا کہ ایسا کرنے سے اسے کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوگا۔لیکن دوسری طرف آرجے ڈی کی جانب سے ذات پر مبنی مردم شماری کے لئے مسلسل دباؤ بنایا جا رہا تھا۔اس وقت تیجسوی یادو اپوزیشن لیڈر تھے۔ انھوں نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ اگر بہار میں ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کا فیصلہ جلد سے جلد نہیں لیا جاتا ہے تو ان کی پارٹی تحریک چلائے گی۔شایدآر جے ڈی کو اس میں شاید اپنا فائدہ نظر آ رہا تھا۔ویسے ذات پر مبنی مردم شماری سے کس کو فائدہ ہوگا اور کس کو نقصان یہ تو آنے والا کل ہی بتائے گا۔مگر ایک بات طے ہے کہ اسی معاملے پر تیجسوی یادو اور نتیش کمارکے درمیان سیاسی دوریاں کم ہونے لگی تھیں۔ اوریہ صورتحال بی جے پی کو قطعی پسند نہیںتھی۔
سیاست کے ماہرین بتاتے ہیں کہ 2020 میں نئی حکومت بننے کے بعد سے ہی نتیش کمار بی جے پی کے چند رہنماؤں کے روّیے سے قطعی مطمئن نہیںتھے۔بی جے پی بھی اس صورتحال کو بھانپ چکی تھی۔ ویسے بی جے پی اورجے ڈی یو کے درمیان کچھ تلخیاں بھی کئی مواقع پر کھل کر سامنے آ چکی تھیں۔بی جے پی کی اعلیٰ کمان شروع سے ہی کسی بھی قیمت پر وزیر اعلیٰ نتیش کمار پارٹی سے الگ نہیں ہونے دینا چاہ رہی تھی۔چونکہ مرکزی حکومت کی الگ رائے رکھنے کے باوجود نتیش کمار بہار میں ذات پر مبنی مردم شماری کرائے جانے کی حمایت میں تھے، اسی لیے بہار بی جے پی با دل نخواستہ اس ایشو پرنتیش کمار کے ساتھ تھی اور اس کے لئے تشکیل کل جماعتی وفد میں شرکت کرتی تھی اور وقت وقت پر منعقد ہونے والی آل پارٹی میٹنگ میں بھی شامل ہوتی تھی۔ حالانکہ بی جے پی کی یہ سیاست کام نہیں آئی اور ایک دن ذات پر مبنی مردم شماری کے معاملے پر تیجسوی یادو نے اعلانیہ طور پر نتیش کمار کی حمایت کرنے کی بات کہہ ہی دی۔پھر دھیرے دھیرے ایسے حالات بنتے گئے کہ آخر کار نتیش کمار اور تیجسوی یادو ایک ہو ہی گئے۔
بہار میں او بی سی ایک بڑا ووٹ بینک ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ بہار میں تقریباً 52 فیصد آبادی او بی سی کی ہے۔ ایسے میں بی جے پی ذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت کرنے پر او بی سی ووٹوں کے عظیم اتحاد میں منتقل کرنے سے خوفزدہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بہار بی جے پی نے مرکز کے نہ کہنے کے باوجود نتیش کے ہاں میں ہاں ملانےاور ان کے ایجنڈے پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
بہر حال بہار حکومت کے سربراہ ہونے کے ناطے ، گرچہ نتیش کمار کے ذریعہ لئے گئے فیصلے کے مطابق ذات پات پر مبنی مردم شماری شروع کی ہو چکی ہے، لیکن سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ اس کا کریڈٹ آر جے ڈی لیڈر اور بہار کے موجودہ نائب وزیر اعلی تیجسوی یادو کو جاتا ہے۔اس فیصلے پر تیجسوی یادو نے بھی کبھی کہا تھا کہ لالو پرساد یادو کا خواب پورا ہو گیا ہے۔ دراصل لالو پرساد یادو شروع سے ہی یہ مطالبہ کر رہے تھے۔ یہ مسئلہ 2020 کے اسمبلی انتخابات کے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھی اٹھایا گیا تھا۔ چونکہ بہار میں ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ تیجسوی یادو نے ہی سب سے پہلے کیا تھااس لئے نتیش کمار نے ایک آل پارٹی وفد کو پی ایم نریندر مودی سے ملنے کے کےلیے دہلی بھی بھیجا تھا۔
7جنوری سے شروع یہ مردم شماری دو مرحلوں میں مکمل کی جائے گی۔ ریاستی حکومت اس پر 500 کروڑ روپے خرچ کرے گی۔ مرکز کے انکار کے بعد بہار حکومت اپنے خرچ پر یہ مردم شماری کروا رہی ہے۔ لیکن اب ظاہر ہے بی جے پی کو ایسا کرنا بالکل اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ اس معاملے میں اپوزیشن لیڈر وجے کمار سنہا ماضی کی باتوں کو بھول کر یہ کہنے لگے ہیں کہ نتیش کمار لالو پرساد کے راستے پر چل کر بہار میں ذات پات کا جنون پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ جس طرح بہار میں مبینہ طور پر شراب بندی ناکام ہوئی ہے، اسی طرح ذات پر مبنی مردم شماری بھی ناکام ہوگی۔ وجے کمار سنہا کا کہنا ہےکہ آزادی کے 75 سال گزر چکے ہیں۔ذات پر مبنی مردم شماری کی ضرورت کسی نے نہیں محسوس کی۔ باپو، جے پی، لوہیا جیسے لوگوں نے ذات پات سے پاک سماج کی تعمیر کا خواب دیکھا تھا، لیکن آج اس راستے پر چلنے کے بجائے نتیش کمار بہار میں ذات پات کا جنون پیدا کرنے کے راستے پر چل پڑے ہیں۔ مگر اپوزیشن لیڈر وجے کمار سنہاکے اس بیان کے حوالے سے بر سر اقتدار حکومت سے وابستہ چند رہنماؤں نے یہ جاننا چاہا ہے کہ جب یہی بات سچ ہے تو پھر قبل میں ذات پر مبنی مردم شماری کے معاملے میں بی جے پی کو نتیش کمار اور تیجسوی یادو کی ہاں میں ہاں ملانے کی ضرورت کیا تھی ؟