Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 1st Feb
ڈولی گڑیا،اتراکھنڈ
” ہم دسویں جماعت کی طالبات ہیں، ہمارا گاؤں باگیشور ضلع ، اُتراکھنڈ کے کپکوٹ بلاک کے تحت آتا ہے اس کا نام پوتھنگ ہے۔یہ گاؤں باگیشور ضلع سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ گاؤں میں آج بھی نوعمر لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ قدامت پسندانہ رواج جاری ہے۔جس کا خمیازہ ہر عمر کی خواتین کو اٹھانا پڑرہا ہے۔ یہ قدامت پسند سوچ حیض کے تعلق سے ہے۔بڑے افسوس کی بات ہے کہ اس جدید دور میں بھی حیض کو ایک لعنت کے طور پر دیکھا جارہا ہے ،جس نے خواتین کی زندگی کو جہنم بنا دیا ہے۔رب نے خواتین کو جس نعمت سے سرفراز کیا تھا اسی کو برا شگون سمجھا جاتا ہے۔اس دوران ہمیں اپنے مذہبی اموراور خدا سے ہی نہیں بلکہ اپنے گھر آنگن سے بھی دور رکھا جاتا ہے اور اس کے لئے ہمارے معاشرے کے ذریعہ باضابطہ قانون بنائے گئے ہیں کہ جب پہلی بار حیض آتا ہے تو ہمیں 21 دنوں تک گھر سے باہر گائے ، بھینس اور دیگر پالتوں جانوروں کے ساتھ گوشالہ میں رکھا جاتا ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ یہ ایک وقت کی بات ہے۔لیکن ایسا نہیں ہوتا، دوسری مرتبہ حیض آنے پر 15 دنوں، تیسری بار 11 دنوں، چوتھی بار 7 دنوں اور پانچویں بار 5دنوں کے لئے ہمیں اپنے گھر سے باہر رہنا پڑتا ہے۔”
درج بالا باتیں دسویں جماعت میں تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کے ایک گروپ کی ہیں، ان لڑکیوںنے پُرجوش انداز میں اپنی باتیں جاری رکھتے ہوئے مذیدبتایاکہ’’ اس مدت کے دوران نہ صرف گھر سے باہر رہنا پڑتا ہے بلکہ ہمیں صبح سویرے اٹھ کر ایسی جگہ جانا پڑتا ہے جہاں ہمیں کوئی دیکھ نہ سکے ۔ ہمیں اپنی ساری ضروریات وہیں پوری کرنی ہوتی ہے۔جب حیض کی مدت مکمل ہوجاتی ہے تو ہمیں ندی میں ہی اہلِ صبح نہانا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں زبردستی شدھی (پاکی)کے لئے گوموتر(گائے کا پیشاب) پلایاجاتا ہے اوریہ صرف ایک بار نہیں،ایک دن میں پانچ پانچ بارپیناپڑتاہے۔اس دوران ہمیں گھر کا بیت الخلا استعمال کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی ہے جس کی وجہ سے گھر سے دور جانا پڑتا ہے۔ اس خوف سے کہ کوئی ہمیں دیکھ نہ لے، دسمبر، جنوری کی ٹھنڈ میں بھی اہل صبح چار۔پانچ بجے نہانے جانا پڑتا ہے۔اس دوران ہمیں کھانے، پانی کی اشیا یاگھرکی کسی چیز کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں ہوتی کیونکہ ہمارے ہاتھ لگانے سے ان کے ناپاک ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے سونے اور اڑھنے والے بستر بھی الگ کردئے جاتے ہیں،جن کو ہمیں روزانہ خود ہی دھونے پڑتے ہیں۔گاؤں کے بزرگ مانتے ہیں کہ حایضہ اگر کسی کو ہاتھ لگائیں گی تو لوگ بیمار ہو جائیں گے اور اگر غلطی سے کسی چیزکو ہاتھ لگ جاتا ہے تو اس پر گوموتر ڈال کر پاک کیا جاتا ہے‘‘۔
حیض کے دوران جب لڑکیوں کو غذائیت سے بھرپور خوراک کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے تو انہیں مناسب خوراک اور غذائیات تودور کی بات ہے، وقت پر دو روٹی بھی نہیں ملتی ، جس سے ان کی جسمانی وذہنی صحت خراب ہوجاتی ہے۔ گائوں کی ایک اور لڑکی نے بتایا کہ’’ اس دوران ہمیں کھانا بھی وقت پر نہیں ملتا جس کی وجہ سے کمزوری محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اچھی طرح پڑھائی نہیں کر پاتے۔ حیض کے دوران ہمارے پاس پیڈ کی کوئی سہولت نہیں ہوتی،اسی لئے کپڑا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے کئی طرح کی مہلک بیماریوں کا خطرہ بنا رہتا ہے‘‘۔ گاؤں کی ایک دیگر دوشیزہ نے بتایاکہ’’جب ہماری چھوٹی بہنوں کو حیض کا مسئلہ ہوتا ہے تو یہ اور بھی خوفناک ہو جاتا ہے، اس وقت انہیں اپنا سارا کام خود کرنا پڑتا ہے کیونکہ دوسرے ان کے ارد گرد بھی نہیں جاتے۔ گوشالہ میں لڑکیاں رات کو گھر سے دور اکیلی سونے سے ڈرتی ہیں، اس لئے وہ ٹھیک سے سو بھی نہیں پاتی ۔ جب ہم چھوٹے تھے اور اس دور سے گزرتے تو ہمیں ایک عجیب سا خوف رہتا تھا کہ ہر ماہ کچھ دنوں تک ہم قیدیوں کی طرح رہیں گے ،جیسے ہم نے کوئی جرم کیا ہو،جس کی سزا بھگت رہے ہیں،اس دوران ہم رات بھر اکیلے روتے تھے ، سوچتے تھے کہ کاش یہ نوبت نہ آتی تو کتنا اچھا ہوتا، حیض نے ہماری ہنستی ،کھیلتی زندگی چھین لی ہے‘‘۔
گاؤں کی ایک 81 سالہ بزرگ خاتون بھگوتی دیوی نے بتایاکہ’’حایضہ کے ساتھ ہونے والا یہ سلوک میرے دادا دادی کے دور سے چلا آ رہا ہے، ہم نے بھی بچپن سے لے کر آج تک اس پر عمل کیا ہے یہ اسی طرح جاری رہے گا۔ یہ ایشور کابنایا ہوا نظام ہے اگر ہم نہ مانیں گے تو ہم پر گناہ ہوگا۔ایک بار ایک حایضہ عورت مندر میں چلی گئی تو وہ پاگل ہوگئی، یہ بات مجھے میری والدہ نے بتائی تھی ۔اسی لئے گاؤں کے لوگ ڈرتے ہیں کہ کہیں انہیں کسی طرح کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ممکن ہے اس کی مخالفت کرنے والا پاگل ہو جائے، اس ڈر سے وہ سب مانتے ہیں کہ حیض کے دوران لڑکیاں دوسروں سے مختلف ہوتی ہیں، اسی لئے انہیں کچن میں بھی نہیں جانے دیا جاتا۔ کوئی ان کی بنائی ہوئی چیز نہیں کھاتا، انہیں دودھ ،دہی یا گھی نہیں دیا جاتا۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر انہوںنے کسی کو ہاتھ لگایا تو وہ بیمار ہو جائے گا‘‘۔گاؤں کی ایک اور 31 سالہ خاتون پشپا دیوی نے بتایا کہ’’ جب مجھے پہلی بار ماہواری آئی تو میں اپنے مائکے میں تھی، میرے مائکے میں اس طرح کے رسم ورواج پر یقین نہیں کیا جاتا ہے، وہاں لڑکیوں کو حیض آیا ہے بھی کہ نہیں کسی کو پتا تک نہیں چلتا۔ وہ بارچی خانے میں کھانا بناتی، مندروں میں جاتی اور سب کچھ عام دنوں کی طرح ہی کرتی ہیں‘‘۔ پشپا دیوی کہتی ہیں کہ یہاں آنے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ یہاں لڑکیوں کے ساتھ حیض کے دوران اچھاسلوک نہیں کیا جاتا ہے، مجھے یہاں آکر معلوم ہوا کہ حیض کے حوالے سے اتنا امتیازی سلوک ہوتا ہے۔
گاؤں کی ایک اُستانی چندراگڑیا کا کہنا ہے کہ’’ہمارا اتراکھنڈ بھارت کی بہترین ریاستوں میں سے ایک ہے جسے بھگوانوں کی سرزمین سمجھا جاتا ہے۔ گاؤں والے اس بات پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ سب لوگوں کی باتیں ہیں، ان کے اقوال ہیں۔حالانکہ بھگوان نے کبھی ایسا کچھ نہیں کہالیکن گاؤں والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حیض کے دوران لڑکیوں کو الگ رکھنا چاہیے اور مندر نہیں جانا چاہیے ورنہ اس سے لڑکی یا دوسرے کی ذہنی حالت خراب ہو جائے گی، یہ سب من گھڑت اور پرانی باتیں ہیں جن میں لوگ اب بھی رہ رہے ہیں۔ یہ توہماتی باتیں جو انہوں نے اپنے دل و دماغ میں بیٹھائی ہوئی ہیں۔ ان کو ہماری باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لئے ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہم اپنی موجودہ نسل اور آنے والی نسلوں کو یہ بات سمجھائیں ،تاکہ ان میں مثبت قسم کی تبدیلی لا سکی‘‘۔یہ رسم و رواج صرف مذکورہ گائوں میں ہی نہیں ہے بلکہ ضلع کے کئی گاؤں میں یہ جاری ہے۔ اس کے خلاف بیداری چلانے کی ضرورت ہے، اگر یہ رواج ایک گاؤں سے بھی ختم ہو جائے، تو ہو سکتا ہے کہ آہستہ آہستہ یہ جاہلانہ رسم ورواج دوسرے گاؤں میں بھی ختم ہو جائے۔ لوگوں کے بنائے ہوئے اس قانون کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ایسی رسومات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے جو عقیدے کے نام پر تشدد کا ارتکاب کرتے ہیں۔یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا اوارڈ 2022کے تحت لکھا گیا ہے۔
(چرخہ فیچرس)