Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 9th Feb
محمد اختر عادل گیلانی
شیطان کو دوست نہ بناؤ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے کے بارے میں قرآن کریم کے حوالے سے کچھ حقائق گذشتہ ہفتہ پیش کیے گئے تھے، قرآن و احادیث میں شیطان اور اس کی ذریت سے ہوشیار بھی کیا گیا ہے اور اس سے بچنے کا نسخۂ اور تدابیر بھی بتائی گئی ہیں، ان حکیمانہ تدابیر کی اندیکھی کرنے کی وجہ سے موجودہ دور میں مسلمانوں کی اکثریت شیطانی چال اور جال میں پھنس چکے ہیں، زندگی کا کوئی بھی ایسا شعبہ نہیں ہے جہاں شیطان کی رسائی اور کارفرمائی نہ ہو، حالانکہ اس کی تمام چالیں اور تدبیریں، شک و شبہات اور اعتراضات پر مبنی ہیں، وہ انسانوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس بات کی چھوٹ اور آزادی دے رکھی ہے، لیکن وہ زبردستی کسی کو گمراہی کی راہوں پر لگانے اور چلانے کی طاقت نہیں رکھتا ہے،
جب وہ فخر و غرور ا ور تکبر و گھمنڈ میں پڑ کر آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تو بارگاہِ خداوندی سے لعنت زدہ ہوا، تب اس نے انسانوں کو بہکانے اور جہنم میں پہچانے کی مہلت مانگی ، جو اسے دی گئی، اللہ کا ارشاد ہے: “پوچھا، ” تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا جب کہ میں نے تجھ کو حکم دیا تھا”؟ بولا،” میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے،،( الأعراف:١٢) اسی گھمنڈ کی بنیاد پر وہ لعنت زدہ ہوا ” بولا، ” مجھے اُس دن تک کی مہلت دے جب تک کہ یہ سب دوبارہ اٹھائے جائیں گے،، فرمایا، ” تجھے مہلت ہے،(الأعراف: ١٤-١٥)
اللہ کی طرف سے شیطان کو یہ مہلت صرف وقت کی ہی نہیں ملی، بلکہ اسے یہ اختیار بھی دیا گیا کہ بنی آدم کو بہکانے کے لیے وہ جو چالیں چلنا چاہے، چلے، اس کی چالوں سے اس کو روکا نہیں جا ئیے گا بلکہ وہ سب راہیں کھلی رہیں گی جن سے وہ انسان کو فتنہ میں مبتلا کر سکتا ہے، البتہ اللہ تعالیٰ نے اس پر واضح کردیا کہ جو میرے بندے ہوں گے ان پر تیرا کوئی دائو نہیں چل پائے گا اور یہ شرط بھی لگا دی کہ میرے بندوں پر تجھے کوئی اقتدار نہ ہو گا، تو صرف اس بات کا مجاز ہوگا کہ ان کو غلط فہمیوں میں ڈالے، جھوٹی امیدیں دلائے، بدی اور گمراہی کو ان کے سامنے خوش نما بنا کر پیش کرے، لذتوں اور فائدوں کے سبز باغ دکھا کران کو غلط راستوں کی طرف دعوت دے، اسی لیے شیطان، انسانوں کو یہ پٹی پڑھاتا ہے کہ تم دنیا میں دولت و طاقت اور شان و شوکت میں بڑھتے چلے جا رہے ہو تو اس میں مذہب، عقائد، فلسفے، نظریات ، اخلاق ، تہذیب اور نظامِ حیات کا کوئی کمال نہیں ہے، دنیا میں جس طرح چاہو آزادانہ اور منمانہ زندگی گزارو،
مگر اٰسے یہ طاقت نہیں دی گئ ہے کہ وہ انسانوں کو زبردستی اپنے راستے پر کھینچ لے جانے اور اگر وہ راہِ راست پر چلنا چاہیں تو انھیں نہ چلنے دے،
شیطان کے بس میں یہ بھی نہیں ہے کہ وہ کسی کو دھن و دولت دے سکتا ہے نہ کسی کو بیمار و اچھا کر سکتا، اللہ نے اس کو صرف وسوسہ اندازے کسی طاقت عطا فرمائی ہے، یہ اختیارات اسے نہیں دیے ہیں کہ اللہ کی بندگی کرنے والو کو بیمار ڈال دے اور کسی کو جسمانی اذیتیں دے کر بندگی کی راہ سے ہٹنے پر مجبور کر دے، اسے یہ طاقت بھی نہیں دی گئی ہے کہ کوئی خدا کی فرمانبرداری کرنا چاہے مگر وہ زبردستی اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے نافرمانی کی راہ پر لگا دے،
ویسے تو شیطان مختلف طریقے سے ہر چہار طرف سے انسانوں پر حملہ آور ہوتا ہے، لیکن ان میں بے حیائی کی راہ دکھانا، شرک اور اپنی بندگی پر آمادہ کرنا اور قرآن سے دور کرنا اس کے اہم اور کارگر ہتھیار ہیں، مضمون کی طوالت کے پیشِ نظر انہیں مختصراً سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں،
بے حیائی و عریانیت: شرم و حیا فطری چیز ہے جو ہر انسان کے اندر پائی جاتی ہے،اعضائے صنفی تو جانوروں اور پرندوں میں بھی ہوتے ہیں، لیکن ان کی پردہ پوشی کا کوئی معاشرتی نظام نہیں ہے، الا یہ کہ قدرت نے انھیں کچھ اس طریقے پر پیدا کیا ہے کہ بعض کی شرم گاہیں دٰم اور پونچھ سے ڈھکی ہوتی ہیں اور کچھ کی پوش(بالوں) اور پنکھ سے، لیکن چونکہ انسان باشعور، با اختیار اور اشرف المخلوقات ہے اس لیے اس کے اعضائے صنفی کی پردہ پوشی کا انتظام بھی کیا ہے،اس کے لیے لباس اتارا تاکہ وہ اپنے قابل شرم حصے کو ڈھانپے، سورہ اعراف میں لباس کا مقصد ستر پوشی، حفاظت اور زینت بتایا گیا ہے، ستر کا مطلب اور تقاضا ہے کہ جسم کے قابلِ شرم اور مخالف صنف کی لذت و کشش والے حصے کو ڈھانپے،ساتھ ہی وہ لباس تقویٰ کا لباس ہو یعنی زیب و زینت میں حد سے بڑھا ہوا یا آدمی کی حیثیت سے گرا ہوا نہ ہو، فخر و غرور اور تکبر و ریا لیے ہوئے بھی نہ ہو، اور پھر اُن ذہنی امراض کی نمائندگی بھی نہ کرتا ہو جن کی بنا پر مرد زمانہ پن اختیار کرتے ہیں، عورتیں مردانہ پن کی نمائش کرنے لگتی ہیں یا شرم و حیا اور پردہ پوشی کے بجائے نہ صرف جسم کے خد و خال کو نمایاں اور پوشیدہ اعضائے جنسی کو بر سرِ عام عریاں اور نیلام کیا جائے _ اعضائے جنسی، انسان کا سب زیادہ نازک اور کمزور پہلو ہے، اسی لیے ابلیس نے آدم و حوا کو ورغلا کر عریاں کر ڈالا، اور آج بھی وہ اسی راستے سے بنتِ حوا کو بے حیائی، عریانی اور اللہ کی نا فرمانی پر آمادہ کر لیا ہے،شیطان کی بندگی شرک ہے: سننے میں تو یہ عجیب سا لگتا ہے کہ کوئی انسان، شیطان کی بندگی کیسے کر سکتا ہے؟ لیکن اللہ تعالیٰ کا خود ارشاد ہے: ” شیطان کی بندگی نہ کرو، (مریم: ٤٥) ویسے تو ظاہراً کوئی بھی شخص شیطان کی عبادت اور بندگی نہیں کرتا ہے، لیکن یہ یاد رہے کہ عبادت و بندگی محض پوجا پاٹ اور پرستش ہی کا نام نہیں ہے بلکہ اطاعت کا بھی نام ہے،اگر کوئی اس پر لعنت بھیجتے ہوئے بھی اس کی بندگی بجا لائے، تو وہ اس کی عبادت کا مجرم ہے، کیوںکہ کسی بھی زمانے میں اس کی براہ راست کوئی معبود نہیں سمجھتا بلکہ لعنت ہی بھیجتے ہیں، شیٰطین کا کام صرف یہ ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں وسوسے اور شک و شبہات القا کرتے ہیں، ان میں سب سے خطرناک چیز اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے، دراصل جو شیطان کی اطاعت و پیروی کرتے ہیں وہ شرک کے مرتکب ہوتے ہیں، یعنی ایک طرف اللہ کی خداوندی کا قرار کرنا اور دوسری طرف اللہ سے پھرے ہوئے لوگوں کے احکام پر چلنا اور ان کے مقرر کیے ہوئے طریقوں کی پابندی کرنا، شرک ہی تو ہے، توحید یہ ہے کہ زندگی و بندگی سراسر اللہ کی اطاعت میں بسر ہو، اللہ کے ساتھ اگر دوسروں کو اعتقاداٌ مستقبل بالذات مُطاع مان لیا جائے تو یہ اعتقادی شرک ہے، اور اگر بلا عذر و کراہیت عملاً ایسے لوگوں کی اطاعت کی جائے جو اللہ کی ہدایت سے بے نیاز ہوکر خود امر و نہی کے مختار بن گئے ہوں تو یہ عملی شرک ہے۔
قرآن سے دور کرنا: شیطان کی ایک اہم چال یہ ہوتی ہے کہ وہ انسانوں کو قرآن سے دور کرکے اس کا رستہ اللہ تعالیٰ سے کاٹ دے، شیطان، انسانوں کے دلوں میں وسوے اور شک و شبہات پیدا کرکے اسے فکر و فہم اور ہدایت سے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس چشمہ ہدایت(قرآن) کے فیض سے محروم ہو جائے، کیوںکہ جس نے قرآن سے ہدایت نہ پائی وہ پھر کہیں ہدایت نہ پاسکے گا ، اور جو اس کتاب سے گمراہی اخذ کر بیٹھا اسے پھر دنیا کی کوئی چیز گمراہیوں کے گڈھ سے نہ نکال سکے گی، شیطان قرآن سے دور کرنے کے لئے ہر طرح کا حربہ استعمال کرتا ہے، پہلے تو انسانوں کے دلوں میں یہ شک و شبہات پیدا کرتا ہے کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے، لیکن جب انسان تعوذ پڑھ کر اس کی تلاوت شروع کرتا ہے تو وہ ورغلاتا ہے کہ ٹھیک ہے، ثواب کی خاطر اسے طوطے کی طرح پڑھ لو لیکن اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش نہ کرو، کیونکہ قرآن کا سمجھنا عام لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے، یہ تو علماء کا کام ہے، ایسی ہی باتیں اکثر علمائے سوء بھی کہتے سنے جاتے ہیں، اگر انسان اس کے جھانسے میں نہ آکر اس پر عمل پیرا ہوتا ہے تو وہ پھر وسوسے دلاتا ہے کہ ٹھیک ہے خود تو اس پر عمل کرلو، لیکن اسے دوسروں تک پہنچانے کی کوشش نہ کرو، اگر انسان اس کی اس چال کو بھی ناکام بنا دیتا ہے تو آخر میں وہ اس کے دل میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ تم تو بڑے علم داں اور مفسرِ قرآن ہو گئے ہو، تم کوئی معمولی آدمی تھوڑے ہی ہو اور لوگوں پر تمہارے علم کی دھاک جم گئی وغیرہ، اس طرح انسان کو فخر و غرور اور تکبر میں مبتلا کرکے اپنا ہمنوا بنا لیتا ہے، اسی لیے اللہ تعالٰی نے قرآن پڑھنے سے پہلے شیطان سے پناہ مانگنے کی دعا سکھائی ہے: پھر جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطانِ رجیم سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو، اُسے اُن لوگوں پر تسلط حاصل نہیں ہوتا جو ایمان لاتے اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں، اس کا زور تو انہیں لوگوں پر چلتا ہے جو اس کو اپنا سرپرست بناتے اور اس کے بہکاوے سے شرک کرتے ہیں،(النمل:٩٨-١٠٠)
مختصر یہ کہ: شیطان، انسانوں کا کھلا دشمن ہے جو کوئی اس سے دوستی کرے گا اور آنکھیں بند کر کے اس کے پیچھے چلے گا وہ آخرت کے دن اپنا دامن جھاڑ لے گا اور اپنے ساتھ اپنے دوستوں کو بھی جہنم میں پہنچا کر دم لے گا،
ضرورت اس بات کی ہے کہ شیطان کی چال سے ہر وقت ہوشیار اور چوکنا رہا جائے اور اس کے شَر و فتنے سے بچنے کی دعا اور کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ:
بعض لوگ ایسے ہیں جو علم کے بغیر اللہ کے بارے میں بحثیں کرتے ہیں اور ہر شیطانِ سرکش کی پیروی کرنے لگتے ہیں ، حالانکہ اُس کے نصیب ہی میں یہ لکھا ہے کہ جو اس کو دوست بنائے گا وہ اسے گمراہ کر کے چھوڑے گا اور عذابِ جہنم کا راستہ دکھائے گا (الحج:٣-٤)
رابطہ:9852039746