Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 26th Feb
قیصر محمود عراقی
ضد کا کوئی علاج نہیں تا ہم کسی بھی شئے کی پہچان اس کی ضد سے کی جا تی ہے ، لفظ ’’ضد‘‘ کئی معنوں میں استعمال ہو تا ہے ، اردو میں اسے بر عکس ، ہٹ دھرمی اور اڑیل پن جبکہ انگریزی میں اپوزیٹ کے مفہوم میںجانا جا سکتا ہے ۔ ضد ایک وسیع و عریض موضوع ہے ، جس کی وسعت اوراق و صفحات میں سمیٹنا نا ممکن ہے ، بہر کیف ہر شئے اپنی ضد سے پہنچا نی جا تی ہے ۔ یہاں اس فلسلے کو چند مثالوں سے اُجا گر کر نے کی کوشش کی گئی ہے ۔ عدل کی ضد ظلم ہے ۔ عدل کا مطلب ہے کسی چیز کو وہاں رکھ دینا جہاں رکھنا اس کا حق ہے ، ظلم کے معنی ہیں کسی شئے کو وہاں نہ رکھنا جہاں رکھنا اس کا استحقاق ہے ۔ ٹوپی سر کے لئے ہے ، جوتا پائوں کے لئے ہے ، ٹوپی سر پر رکھنا اور جوتا پائوں میں ڈالنا عدل ہے ، ٹوپی سر کے بجا ئے پائوں میں رکھنا اور جوتا پائوں کے بجا ئے سر پر رکھنا ظلم ہے ۔ عدل و ظلم کے مطالب کے پیش نظر عدل کی ضد ظلم اور ظلم کی ضد عدل ہے اس کی سمجھ آجا ئے تو ظلم اور عدل کی اصل معلوم ہو جا تی ہے ۔ عشق اور حسن بھی ایک دوسرے کی ضد ہیں ، عشق حسن کو مسخر کر کے قرار چاہتا ہے ، حسن اپنے غمزوں ، عشووں ، ناز و نخرے سے عشق کی بے چینی کا طلب گار ہے ، حسن سمجھ میں آجا ئے تو عشق کی اصل تک رسائی مل سکتی ہے ، عشق اُجان لینے سے جن کا ادراک ہو جا تا ہے ۔ آگ اور پانی بھی ایک دوسرے کی ضد ہیں ،آگ کی سمجھ آجا ئے تو پانی کے مفہوم و معنی سے آگاہی ہو جا تی ہے اور پانی کا ادراک آگ سے روشنا س کرا تا ہے ۔ لو ہا پگھلا دینے والی آگ پانی کے ہاتھوں موت کی نیند سوجا تی ہے ۔ آگ بجھا دینے والا پانی آگ پر رکھ دیا جا ئے تو آگ پانی کو سکھا کر معدوم کر دیتی ہے ۔
رات اور دن بھی ایک دوسرے کی ضد ہیں ، رات عبادت و آرام کے لئے ہے اور دن کام کاج کے لئے ہے ، رات کے مفہوم سے آشنائی ہو جا ئے تو دن کی حقیقت آشکار ہو جا تی ہے ۔ اگر دن کی اصل معلوم ہو جا ئے تو رات کے معانی کا علم ہو جا تا ہے ، دن کو محنت مشقت کر نے والے رات کو پُر سکون نیند سو تے ہیں ، جو لو گ رات کے فوائد جا نتے ہیں اُن کے لئے دن کی سختی آسانی ہو تی ہے ۔زندگی اور موت بھی ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ زندگی کی حقیقت کا پتہ آزمائش ہے ، موت انسان کو زندگی کے رنج و آلام سے بچا کر چمنستان سکون میں لے جا تی ہے ، دکھ درد جا ن چھوڑ دیتے ہیں ۔ پھر بھی انسان زندگی سے پیار کر تا ہے اور موت سے فرار چاہتا ہے ۔ زندگی اور موت دونوں کی اصل معلوم ہو جا ئے تو انسان زندگی کے بجا ئے موت کی تمنا کر ے ۔ خیر اور شر بھی ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ خیر خدا کی صفت ہے جس کی ہر جہت سے خیر کے سوتے پھوٹتے ہیں ، لیکن خیر کی ضد شر شیطان کا تعارف ہے ۔ لاکھوں سال اللہ کی عبادت کر نے کے با وجود اطاعت سے انحراف کر کے شیطان ہمیشہ کے لئے لعنتی اور رجیم ہو گیا ۔ انسان کے جسم میں خون کی دو نہریں رواں ہیں ، ایک شریان دوسری ورید کہلا تی ہے ۔ ان سے بھی خیر اور شر سمجھے جا سکتے ہیں ، ایک میں شفاف خون رواں ہے ، دوسری بدرود ہے ۔ انسان خیر کو سمجھ لے تو شر کے کبھی قریب نہ جا ئے اور اگر شر کو جان لے تو پھر ہمیشہ خیر کا دامن تھا مے رکھے ۔ انسان اور حیوان بھی ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ انسان کی پہچان سے اس کی ضد حیوان کی حقیقت سے آگاہی ہو جا تی ہے ، انس انسان کا مصد رہے ، وہ دردِ دل کے واسطے پیدا کیا گیا ،عقل سے عاری حیوان بس کھاتا ہے ، سوتا ہے اور یونہی جئے جا تا ہے ۔ حیوانوں کو ناز ہے کہ وہ اپنے جیسے حیوانوں کے دشمن ہیں نہ اُن کا خون کر تے ہیں جبکہ انسان ازل سے اپنے جیسے انسان کا دشمن اور قاتل ہے ۔ حیوان کی جان کاری سے انسان واضح ہو جا تا ہے ، انسان کے سمجھنے سے حیوان سمجھا جا تا ہے ۔ فر زانہ اور دیوانہ بھی ایک دسرے کی ضد ہیں ۔ دیوانہ سوچتا نہیں جو چاہتا ہے کئے جا تا ہے ، اسے نفع و نقصان کی تمیز نہیں ہو تی ۔ فرزانہ سوچتا ہے ، پہلے تولتا ہے پھر بولتا ہے ۔ کہیں ایسانہ ہو جا ئے ، کہیں ویسا نہ ہو جا ئے کی میزان فرزانہ کے ہاتھ میں ہو تی ہے ، دیوانہ اس ادراک سے محروم ہے ۔ اس لئے جس نے دیوانہ کو جان لیا وہ فرزانہ کی اصل پاگیا اور جس نے فرزا نہ کی حقیقت پالی وہ دیوا نے کے رموز سے واقف ہو گیا ۔ محبت اور نفرت بھی ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ محبت جان لینے سے نفرت کی حقیقت واضح ہو جا تی ہے ، محبت غزنوی کو ایازی سکھاتی ہے ، رشتوں کی پہچان کر ا تی ہے ، ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے کی ترغیب دیتی ہے ، لیکن نفرت حسد و جلن کا آمیختہ ہے وہ سگے بھائی بہنوں کو ایک دوسرے کی دشمن کے گھاٹ اُتار دیتی ہے ، اگر محبت کی سمجھ آجا ئے اور نفرت جان لی جا ئے تو محبت و نفرت کے تضا دات عیاں ہو جا ئیں اور زندگی پُر سکون ہو جا ئے ۔ وفا اور جفا بھی ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ جفا کے خوگروں کا کوئی شمار نہیں ، اہل وفا کی تعداد ہمیشہ گنی چنی ہو تی ہے ، جفا اور وفا کے درمیان پائے جا نے والے فرق اور فاصلے سے وفا کی اصلیت اور جفا کی حقیقت معلوم ہو جا تی ہے ۔ وفا کر نے والے اطمینان کے پیکر ہو تے ہیں جبکہ بے وفا اور جفا ہمیشہ دوسروں سے جلتے کٹرھتے اور بد خواہی کے جال میں قید رہتے ہیں ۔
نیکی اور بدی بھی ایک دوسرے کی ضد ہیں جس سے ہر کس و نا کس واقف ہیں ۔ اللہ سے اس طرح ڈرتا کہ وہ بندے کو دیکھ رہا ہے ، کسی بھی بدی سے بچ کر نیکی کی طرف مائل رہنا بدی کی اصل سے آگاہ کر تا ہے ۔ بدی کر نے والے ہر وقت اسی سوچ میں رہتے ہیں ، زندگی چار دن کی ہے ، موج کرو، مزے اُڑائو، محنت سے پیسہ کما نے کی بجا ئے غلط طریقوں سے مالدار بننے کا خواب دیکھتے ہیں ۔ نیکی کر نے والے ہمیشہ بدی کے خو گروں کے زیر ِعتاب رہتے ہیں ۔ اس لئے نیکی جا ننے کے لئے بدی سے واقف ہو نا نا گزیر ہے ۔ نیکی آگاہی بدی کے اسرار سے بہتر آگاہ رکھتی ہے ۔ عروج و زوال بھی ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ عروج میں شکر بے شمار کیا جا ئے اور زوال میں صبر کر کے زندگی پُر سکون بنا لی جا ئے تو وار نیارے ہو جا تے ہیں ۔ بے شمار لوگ جب اللہ کے فضل سے عروج کی جا نب گامزن ہو تے ہیں تو وہ اس چیز کو اللہ کی نعمت و احسان سمجھنے کے بجا ئے عروج کو اپنی صلا حیت کا اعجاز سمجھتے ہیں ، شکر سے کو سوں دور ہو جا تے ہیں اور جب اپنے نا شکر ے پن کی وجہہ سے وہ زوال کا شکار ہو تے ہیں تو اللہ کی شکا یتیں اپنے جیسے عاجز بندوں سے کر نے لگتے ہیں ۔ عروج کا مفہوم جا ننے کے لئے زوال کی اصل جاننا ضروری ہے ۔ زوال کے بارے میں پتہ چل جا ئے تو عروج کی سمجھ خود بخود آجا تی ہے ، عروج شکر کی تر غیب کا دوسرا نام ہے ، زوال صبر کے ادراک کی واضح صورت ہے ۔ طیش اور عیش بھی ایک دوسرے کی ضد کہلا ئی جا سکتی ہیں ، طیش میں خوف خدا دامن گیر رہے اور عیش میں یاد خدا ہم رکاب ہو تو زندگی دکھوں سے آزاد ہو جا تی ہے ۔ طیش اس بے قابو غصہ کانام ہے جب انسان اچھائی اور بُرائی کا فرق بھول جا تا ہے جبکہ عیش اس کیفیت کو کہتے ہیں جب انسان ہوتا س بندہ ہے لیکن خدا بن بیٹھنے کی کو شش کر تا ہے ۔
بہر حال خواچھی بھی ہوتو ضد اچھائیوں پر پانی پھیر دیتی ہے ، اس لئے ضد سے بچنا چائیے، ہر شئے کی ضد جان کر اُس چیز کی پہچان کر لی جا ئے ، یہی دین و دانش ہے ، یہی عقل و ایمان ہے اور اسی وصف سے انسان ایک دوسرے کا کام آسکتا ہے ۔
———————
موبائل :6291697668