توازن بر قرار رکھنا ضروری ہے

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 18th March

اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اور ممبر پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے سیمانچل میں دستک دیدی ہے۔اس دستک نے علاقے کی سیاسی حرارت کو بڑھا دیاہے۔موصوف سیمانچل کے مسلم اکثریتی ضلع کشن گنج کے مختلف علاقوں میں اپنی زمین کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسد الدین اویسی کی آمد سے قبل مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور عظیم اتحاد کے رہنما بھی اس علاقے میںعوامی جلسہ کر چکے ہیں۔مسلم اکثریت کی وجہ سےعظیم اتحاد کے لوگ سیمانچل کو اپنا بڑا ووٹ بینک کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یہ علاقہ آر جے ڈی کے ایم وائی (مسلم۔یادو)ایکویشن کا ایک بڑا گڑھ مانا جاتا ہے۔بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ 2024 میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر یہ سب کچھ ہورہا ہے ۔لیکن تمام سیاسی جماعتوں کی نظر 2025 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات پر بھی ہے۔ اے آئی ایم آئی ایم کی دستک کا بھی یہی مقصد ہے۔اویسی کی آمد جہاں عظیم اتحاد کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، وہیں بی جے پی کیمپ میں خوشی کا ماحول ہے۔
سیمانچل کی زمین پر اے آئی ایم آئی ایم کی پکڑ کا اندازہ اس وقت ہوا تھا، جب 2020 کے اسمبلی انتخابات میں اس کے 5 ایم ایل اے منتخب ہوئے۔حالانکہ بعد میں ان میں سے 4 اپنا پالا بدل کر آر جے ڈی کا حصہ بن گئے تھے۔حالانکہ انتخابات سے قبل پارٹی کے ریاستی صدر اخترالایمان نے آر جے ڈی سے انتخابی تال میل کی کافی کوشش کی تھی، لیکن آر جے ڈی کے ذمہ داروں نے ان کی ایک بھی نہیں سنی۔کہتے ہیں کہ اس وجہ سے آر جے ڈی کو سیمانچل میں 20 سے 25 سیٹوں کا نقصان اٹھا نا پڑ گیا تھا۔اس بار پھر پارٹی سربراہ اسد الدین اویسی نے سیمانچل میں اپنی سرگرمی بڑھا دی ہے۔
بہار کی سیاست میںکچھ ایسے واقعات ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے مسلمانوں کا اعتماد نتیش کمار کے ساتھ نسبتاََ زیادہ مضبوط ہوا ہے۔نتیش کمار وقت وقت پر یہ احساس دلاتے رہے ہیں کہ نفرت کی سیاست کرنے والوں کا وہ ساتھ نہیں دے سکتے ہیں۔سی اے اے اور این آر سی کے معاملے پر بھی وزیر اعلیٰ نتیش کا موقف مرکزی حکومت سے بالکل الگ رہا۔اتر پردیش اور دیگر ریاستوں میں جب مذہبی مقامات سے لاؤڈ اسپیکر اتارے جانے کا فرمان جاری ہورہا تھا، تب بھی نتیش کمار نے صاف صاف یہ کہہ دیا تھا ’’ یہ سب فالتو بات ہے، بہار میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔یہاں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ نتیش کمار کی یہ ادا مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ملک کے تمام امن پسند عوام کو خوب پسند آئی تھی۔حالانکہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بہار کے کثیر آباد مسلم علاقوں کے 15 سے 20 فیصد مسلمان آج بھی اے آئی ایم آئی ایم کے ساتھ ہیں۔یہی 15 سے 20 فیصد بہار میں عظیم اتحاد کے لئے بھاری پڑ سکتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ اے آئی ایم آئی ایم نے 2020 میں سیمانچل میں پہلی بار اپنے امیدوار کھڑے کئے تھے۔ غیر متوقع طور پر ان میںسے 5 کو کامیابی بھی ملی تھی ۔اس کے بعد حال ہی میںدو اسمبلی سیٹوں کڑھنی اور گوپال گنج کے ضمنی انتخابات میں بھی اے آئی ایم آئی ایم کے امیدواروں کا اثر نظر آیا تھا۔یہ بات طے ہے کہ اے آئی ایم آئی ایم کے امیدوار گوپال گنج کے انتخابی میدان میں نہیں ہوتے تو آر جے ڈی امیدوار کی جیت یقینی تھی۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ اے آئی ایم آئی ایم کے امیدوار اگر کثیر آباد مسلم علاقوں میں کھڑے ہوتے ہیں تو وہ نہیں جیتنے کے باوجود عظیم اتحاد کی جیت کے راستے میں رکاوٹ ضرور کھڑی کر سکتے ہیں۔
اے آئی ایم آئی ایم کے پلان کے مطابق اسد الدین اویسی سیمانچل کے کئی اسمبلی حلقوں میں میٹنگیں کرر ہے ہیں۔ ان کے حامیوں میں زبردست جوش و خروش ہے۔ کل پہلے دن ان کی پارٹی نے پورنیہ کے بائیسی، ڈگروا،امور بلاک کے کھادی گھاٹ اور کوچادھامن بلاک کے بھٹہ ہاٹ پر عام جلسے کا اہتمام کیا تھا۔آج اتوار کو بہادر گنج اسمبلی حلقہ کے مختلف مقامات پر ورکرس کانفرنس کریں گے۔اے آئی ایم آئی ایم نے مقامی مسائل کے حوالے سے 11 نکاتی مطالبا ت پر مشتمل ایک ڈیمانڈ لیٹر تیار کیا ہے۔اسی کے ساتھ وہ عوام کے درمیان جا رہے ہیں۔ ان کی توجہ ان حلقوں پر زیادہ ہے، جہاں سے پچھلی بار ان کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ اس بیچ اے آئی ایم آئی ایم کے ریاستی صدر اختر الایمان کے حوالے سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ ان کے4 ایم ایل ایز کی قیمت آرجے ڈی کو 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں ادا کرنی ہوگی۔حالانکہ سیاسی مبصرین کا دعویٰ ہے کہ خواہ پارلیمانی انتخابات ہوں یا اسمبلی انتخابات، عظیم اتحاد کے ذمےداران اپنے پچھلے تجربات سے سبق لیتے ہوئے ضرور کوئی مثبت فیصلہ لیں گے۔اسی طرح اے آئی ایم آئی ایم سربراہ بھی ایسا کچھ نہیں ہونے دیں گے، جس کی وجہ سے یوپی اور گجرات اسمبلی انتخابات جیسا کوئی نتیجہ بہار میں بھی دیکھنے کو ملے۔خاطر خواہ نتائج کے لئے طریقۂ کار میں توازن کا بر قرار رکھنا ضروری ہے۔
*****************************