کیا یہی جمہوریت ہے ؟

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 17th March

کانگریس کے رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی لندن کی کیمبرج یونیورسیٹی میں پچھلے دنوں دئے گئے اپنے بیانات کو لےکر حکمراں جماعت کے نشانے پر ہیں۔حکمراں پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ راہل سے مسلسل معافی مانگنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اگر راہل گاندھی ایوان میں آ کر اپنے بیانات پر معافی نہیں مانگتے ہیں تو ان کے خلاف معطلی کی کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی نے لوک سبھا اسپیکر اوم برلا سے رابطہ قائم کرکے ان سے اس کے لئے ایک خصوصی کمیٹی کی تشکیل کامطالبہ کیا ہے۔
انڈین ایکسپریس میں شائع ایک خبر کے مطابق یہ خصوصی کمیٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے 2005 میں کیش فار کوئری اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے پینل کی طرز پر بنائی جائے گی۔ خصوصی کمیٹی ایک ماہ میں اپنی رپورٹ دے سکتی ہے۔ مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو کا کہنا ہے کہ ہماری پارٹی تمام قواعد و ضوابط کو بروئے کار لانے کی کوشش کرے گی۔ اگر راہل گاندھی ملک کی توہین کریں گے تو ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نےبھی راہل گاندھی پر حملہ کیا ہے۔ انھوں نے راہل گاندھی کی تقریر پر طنز کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر گھر میں لڑائی ہوتی ہے تو اس پر گھر کے اندر ہی بات ہونی چاہیے۔ لیکن راہل گاندھی نے گھر سے باہر بات کی ہے۔ راہل گاندھی کی اس حرکت کو کوئی بھارتیہ قبول نہیں کرے گا۔ جب بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن گیا ہے تو باہر اس طرح کے بیانات کیوں دئیے جاتے ہیں۔ اسمرتی ایرانی کے مطابق راہل گاندھی خود پارلیمنٹ سے غیر حاضر رہتے ہیں۔ کل بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر جے پی نڈا نے بھی کہا کہ راہل گاندھی کو ملک سے معافی مانگنی ہوگی۔
اِدھر کانگریس کے لیڈروں نے بی جے پی کے رویہ پر اپنے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے صاف صاف کہہ دیا ہےکہ راہل معافی نہیں مانگیں گے۔ جمعہ کے روزجب کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور انڈیا ٹوڈے کنکلیو میں پہنچے تو ان سے بھی راہل کے بارے میں سوال کیا گیا۔ معافی کے سوال پر تھرور نے کہا کہ راہل گاندھی نے ایسا کچھ نہیں کہا، جس کے لیے انہیں معافی مانگنے کی ضرورت ہے۔ ترواننت پورم سے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور ’’امبیڈکر اور شمولیت ‘‘ موضوع پر انڈیا ٹوڈے کنکلیو سے خطاب کر رہے تھے۔ اس گفتگو کے دوران ان سے راہل گاندھی کے لندن بیان پر بھی سوال کیا گیا تھا۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا حکمراں پارٹی کے مطالبے پر راہل گاندھی ایوان میں معافی مانگیں گے؟ اس پر تھرور نے کہا کہ نہیں۔ تھرور کا کہنا تھا کہ راہل گاندھی سے ایسی بات کی معافی مانگی جا رہی ہے جو انھوں نے بالکل نہیں کہی ہے۔ ششی تھرور کا ماننا ہے کہ یہ ہمارا مسئلہ ہے اور ہم اسے حل کریں گے۔ بھارت ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں ہر ایک کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا حق ہے۔
ششی تھرور کا کہنا ہے کہ اگر کسی کو معافی مانگنی چاہیے تو وہ پی ایم نریندر مودی ہیں۔ پی ایم مودی کئی بار بیرون ملک گئے اور کہا کہ 60 سال میں ملک میں کچھ نہیں ہوا۔ انہوں نے غیر ملکی سرزمین سےبھارت کی سابقہ حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔واضح ہو کہ تھرور سے پہلے کانگریس کے قومی صدر ملکارجن کھڑگے نے بھی اپنے ملک کی پچھلی حکومتوں کے لیے بیرون ملک بیانات پر پی ایم مودی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا۔کانگریس کے لوگوں کا کہنا ہے کہ راہل گاندھی کوکل ایوان میں اپنے اوپر لگے الزامات پر بات کرنی تھی، لیکن ان کے ایوان میں آتے ہی ہنگامہ تیز ہوگیا۔ اس کے بعد لوک سبھا اسپیکر اوم برلا نے ایوان کی کارروائی پیر تک ملتوی کر دی۔واضح ہو کہ اس سے پہلے جمعرات کو راہل گاندھی نے لندن سے آنے کے بعد پہلی بار پریس کانفرنس کی تھی۔ اس میں انہوں نے کہا کہ وہ ایوان میں حکمران جماعت کی طرف سے لگائے گئے الزامات کا جواب دیں گے۔ اس کے ساتھ انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ انہیں بولنے کی اجازت دی جائے گی۔
یاد رہے کہ لندن کی کیمبرج یونیورسٹی میں اپنی تقریر کے دوران راہل گاندھی نے پچھلے دنوں کہا تھا کہ’’ بھارت میں جمہوریت کو تباہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ میرے فون پر پیگاسس بھی تھا، مجھے حکام نے محتاط رہنے کا مشورہ دیا تھا، کیونکہ میری کال ریکارڈ کی جا رہی تھی۔ اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔ میرے خلاف کئی مقدمات درج ہیں۔ ساتھ ہی راہل نے کہا تھا کہ جب وہ پارلیمنٹ میں بولتے ہیں تو ان کا مائیک بند ہوجاتا ہے۔‘‘
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ راہل گاندھی اپنے مذکورہ بیان پر جب ایوان میں اپنی صفائی پیش کرنا چاہتے ہیں تو انھیں اس کے لئے موقع دیا جا رہا ہے۔ ایسے منفی تاثر کا پیدا ہونا فطری ہے۔ایسے میں کیا ایسا تاثر نہیں پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی کی حکمت عملی یہ ہے کہ کانگریس اگر ایوان میں کچھ صفائی دینا بھی چاہتی ہے تو اسے اس کے لئے موقع نہیں دیا جائے۔ صرف شور مچایا جائےاور اتنا شور مچایا جائے کہ اڈانی معا ملہ اسی شور میں گم ہو کر رہ جائے۔اگر یہ سچ ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہی جمہوریت ہے ؟
***********************