Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 6th March
عام لوک سبھا انتخابات کے اعلان میں اب صرف 12 ماہ اور رہ گئے ہیں۔ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے مشن 2024 کے لیے بہت پہلے سے کمر کس لی ہے۔ لیکن جوں جوں انتخابات کی تاریخ قریب آتی جارہی ہے، اپوزیشن اتحاد کا دعویٰ کمزور ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ تلنگانہ کے سی ایم کے چندر شیکھر راؤ تیسرے محاذ کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ کانگریس انتخابات کے بعد وزیر اعظم کے عہدے پر رائے قائم کرنے کو کہہ رہی ہے۔باقی پارٹیوں کا کوئی اتا پتا نہیں ہے۔جے ڈی یو بھی ان دنوں کچھ خاموش خاموش سی نظر آ رہی ہے۔دوسری طرف بی جے پی اوپر سے لیکر نچلی سطح تک پوری طرح سے اکٹیو ہو چکی ہے۔ اس کے مقابلے میں اپوزیشن کا دور دور تک نام و نشان بھی نہیں ہے۔
قابل ذکر ہے کہ تلنگانہ کے سی ایم کے چندر شیکھر راؤ سمیت 8 اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں نے مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کے غلط استعمال کے خلاف پی ایم مودی کو خط لکھا تھا۔خط لکھنے والوں میں دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال، مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی، پنجاب کے وزیراعلیٰ بھگونت مان، آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو، این سی پی لیڈر شرد پوار، نیشنل کانفرنس لیڈر فاروق عبداللہ، شیوسینا لیڈر ادھو ٹھاکرے اور ایس پی لیڈر اکھلیش شامل تھے۔ اپوزیشن لیڈروں نے اپنے خط میںدہلی کے سابق ڈپٹی سی ایم منیش سسودیا کی گرفتاری کا بھی ذکر کیا ہے۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ اس خط پر کسی بھی کانگریس لیڈر کے دستخط نہیں تھے۔ یہی نہیں بہار میں بی جے پی سے دامن چھڑا کر آر جے ڈی کے ساتھ اقتدار میں آنے والے جے ڈی یو کے کسی لیڈر کا بھی اس خط پر کوئی دستخط نہیں تھا۔
ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھ کر ایسا لگتا ہےکہ تمام اپوزیشن جماعتیں اپنی سہولیات اور اپنے مفادات کو آگے کرکے معاملہ طے کرنا چاہتی ہیں۔ تریپورہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس اور بائیں بازو نے ایک ساتھ مقابلہ کیا تھا۔ لیکن کیرالہ میں وہی پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ قومی سطح پر کانگریس اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پارٹی یہ دعویٰ بھی کر رہی ہے کہ 2024 میں کانگریس کی قیادت والی اپوزیشن مخلوط حکومت بنے گی۔ لیکن اس سے پہلے اپوزیشن جماعتوں کے درمیان جو اتحاد ہونا چاہیے تھا وہ دور دور تک زمین پر موجود نہیںہے۔
کچھ عرصہ پہلے تک ممتا بنرجی اپوزیشن کیمپ کا سب سے زیادہ اونچی آواز والا چہرہ تھیں۔ لیکن اب کچھ عرصے سے وہ خود ریاست کی سیاست میں الجھ گئی ہیں۔ ۔ تلنگانہ کے سی ایم کے چندر شیکھر راؤ متحدہ اپوزیشن کی بجائے تیسرے محاذ کا سب سے مضبوط چہرہ بن گئے ہیں۔ اس محاذ میں کئی دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی شامل ہیں۔ان میں ایک اہم نام شرد پوار کا بھی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پی ایم مودی کے خلاف اتحاد کی بات کرنے والے لیڈر دو کیمپوں میں بٹ گئے تو بی جے پی کے خلاف مضبوط محاذ کیسے بنے گا؟ جے ڈی یو لیڈر نتیش کمار کئی بار کانگریس سے اپیل کر چکے ہیں کہ اگر آپ اکٹھے ہو جائیں تو بی جے پی 100 سیٹوں تک میں سمٹ جائے گی۔ لیکن عملی طور ان کی سطح سے بھی کچھ نہیں کیا جا رہا ہے۔ کچھ دنوں پہلے تک یہ سنا جا رہا تھا کہ وہ ملک کے تمام اپوزیشن جماعتوں سے ملنے کی غرض سے نکلنے والےہیں، لیکن اب اس طرح کی بات سننے میں نہیں آرہی ہے۔
دراصل، کانگریس کو راہل گاندھی کی ’’بھارت جوڑو یاترا ‘‘کو ملنے والے زبردست ردعمل پر کافی بھروسہ ہے۔ پارٹی کے کئی لیڈر راہل کو پی ایم امیدوار قرار دے چکے ہیں۔ کانگریس جو گزشتہ 10 سالوں سے مرکز میں اقتدار سے باہر ہے، وزیر اعظم کے عہدہ پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ پارٹی کسی بھی محاذ میں شامل ہوتی ہے تو اسے نقصان کا اندیشہ ہے۔ اسی لیے کانگریس اپوزیشن جماعتوں سے کہہ رہی ہے کہ تمام پارٹیاں مل کر الیکشن لڑیں اور نتیجہ آنے کے بعد لیڈر کا انتخاب کیا جائے گا۔ کانگریس یہ بھی جانتی ہے کہ وہ صرف قومی سطح پر بی جے پی سے مقابلہ کر سکتی ہے۔ نتیش کی منت سماجت کا بھی یہی مطلب نکالا جا رہا ہے۔ چندعلاقائی پارٹیاں ا یک دوسرے محاذ پرمتحد ہوتی نظر آ رہی ہیں، لیکن کیا کانگریس اپنا نقصان برداشت کر کے ان کے ساتھ جائے گی؟ اس سوال کا جواب فی الحال نفی میں سامنے آتا دکھائی دے رہا ہے۔
سو بات کی ایک بات یہ ہے کہ بادی النظر میںاپوزیشن کی مورچہ بندی کے تمامتردعوؤں کے باوجود بی جے پی ان سے ہر لحاظ سے مضبوط پوزیشن میں ہے۔ 2019 میں یوپی میں بی ایس پی۔ایس پی اتحاد ہو یا تریپورہ میں کانگریس۔بائیں بازو کا اتحاد۔ یہ اتحاد بی جے پی کو شکست دینے میں ناکام رہے ہیں۔ ایسے میں کانگریس کا ایک حصہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ تمام پارٹیوں کو الگ الگ الیکشن لڑنا چاہئے اور نتائج کے بعد اتحاد بنانا چاہئے۔ یعنی جہاں بھی وہ مضبوط ہو، اسے بی جے پی کو مقابلہ دینا چاہیے۔ایسے میں یہ نکتہ آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ملک میں اپوزیشن کی سیاست کا کیا رخ ہے۔ یہ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ بکھرے ہوئے تاروں سے روشنی کی امید فضول ہے۔
*****************