Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 5th March
بلجیئم،5مارچ:بیلجیم کی ایک سفاک خاتون جو اپنے پانچ بچوں کو بے دردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارے جانے پرعمر قید کی سزا کاٹ رہی تھی کو ایک اسپتال میں موت کی نیند سلا دیا گیا ہے۔جینیویو لیرمیٹ جو ایک مراکشی شہری بو شعیب مقدم کی بیوی تھی نے سنہ 2007ء میں اپنے پانچ بچوں کو قتل کرکے خود کشی کی کوشش کی تھی تاہم اسے زخمی حالت میں بچا لیا گیا تھا۔بد بخت لیرمیٹ پربیلجیم کی ایک عدالت میں مقدمہ چلایا گیا جہاں اس پر جرم ثابت ہونے پراسے عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ سنہ 2019ء میں وہ شدید نفسیاری عوارض کا شکار ہوئی جس کے بعد اسے اسپتال لے جایا گیا۔ اس نے اپنے وکیل نکولس کوہن کے ذریعے بیماری سے نجات کے لیے ’پرسکون موت‘ کی درخواست دی تھی۔ وکیل کوہن کا کہنا ہے کہ اس کی موکلہ نے کہا تھا کہ اسے 28 فروری کو موت دی جائے کیونکہ یہ اس کے بچوں کی سولہویں برسی ہے۔یہ ہولناک کہانی اس وقت شروع ہوئی جب لیرمیٹ کے مراکشی شوہر بو شعیب مقدم فروری 2007ء میں مراکش میں اپنے والدین سے ملنے گئے تھے۔ اس دوران لیرمیٹ نے اپنے پانچ بچوں یاسمین، نورا، مریم، مونا اور مہدی کو ذبح کر دیا۔ ان کی عمریں 3 سے 14 سال کے درمیان تھیں۔ اخبار دی سن کے مطابق اس نے چاقو ایک مقامی سپر مارکیٹ سے چرایا تھا اور اس کے ساتھ اپنی جان لینے کی بھی کوشش کی تھی۔اپنے پانچ بچوں کو بے رحمی کے ساتھ قتل کرنے والی ماں نے اس وحشیانہ فعل کی عجیب وغریب وجہ بیان کی جس پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔بچوں کو جان سے مارنے کے سوال پرلیرمیٹ نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے جواب دیا کہ اس کے ساتھ گھر میں ڈاکٹر مائیکل سکار نامی ایک بوڑھا شخص رہ رہا تھا۔ وہ رہائش کے بدلے گھر میں خرچہ بھی کرتا اور تمام بل وہی ادا کرتا تھا۔ لیرمیٹ کو اس سے شدید نفرت تھی اور وہ اپنے بچوں کو اس سے دور رکھنا چاہتی تھی۔جب ان سے اس کے بچے کی لاش کے بارے میں پوچھا گیا جسے اس نے قتل کرنے کے بعد باتھ ٹب میں رکھا تھا جبکہ دیگرچار بچوں کی لاشیں ان کے بستروں پر پڑی تھیں تو اس نے جواب دیا کہ اس کا یہ بچہ سکار کے دل کے سب سے قریب تھا۔ اس نے اسے بہت خراب کیا، تو میں نے نے اسے قتل کرکے باتھ ٹب میں ڈال دیا تاکہ وہ [سکار] بھی یاد رکھے۔56 سالہ لیرمیٹ کو 2008 میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ سنہ 2019 میں نفسیاتی ہسپتال منتقل کیا گیا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ بیلجیئم کا قانون لوگوں کو ’آرام دہ موت‘ کے انتخاب کی اجازت دیتا ہے اگر وہ ناقابل برداشت نفسیاتی تکلیف میں مبتلا پائے جائیں اور وہ اسے برداشت کرنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں تو ایسے مریضوں کو موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔