بھارت کا دورہ کرنا میرے لیے مستقبل میں قدم رکھنے جیسا تھا

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 10th March

پٹنہ، 10 مارچ (تاثیر بیورو) پاکستانی خارجہ پالیسی کے ماہرعزیر یونس نے اپنے ایک ویڈیو میں کہا ہے’’ ہمارے ملک میںسیاست کے لئے ہمیں جھوٹ بولنے کی ٹرینگ دی جاتی ہےجبکہ بھارت کے لوگ مثبت توانائی اور نظریہ رکھتے ہیں، یہ ہمارے لئے سیکھنے کی بات ہے، اگر ابھی نہیں تو پھر کبھی نہیں۔‘‘
پاکستانی خارجہ پالیسی کے نامور ماہر عزیر یونس نےاپنے ایک ویڈیو میں کہا ہے کہ ملک کے حالیہ دورے کے دوران ہندوستان میں ڈیجیٹل قدموں کے پھیلاؤ کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئے۔ اس سے پہلے انھوں نے ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا۔اس وقت وہ ایسا محسوس رہے تھے گویا مستقبل میں کسی ریاست کا دورہ کر رہے ہیں۔ عزیر یونس ویڈیو میں کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنے آبائی گاؤں میں موجود درگاہ کو اکثر دیکھتے رہے ہیں۔ درگاہ کی زیارت کرنے والوں میں اکثریت ہندوؤں کی ہوتی ہے، یہ ان کی عقیدت کی بات ہے لیکن ہم پاکستانی ایسے ہیں، جنھیں سیاسے کی خاطر جھوٹ بولنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اٹلانٹک کونسل کے ساؤتھ ایشیا سینٹر میں پاکستان انیشیٹو کے ڈائریکٹر عزیر یونس کا یہ تبصرہ ’’پاکستان ایکسپیرینس‘‘ کے نام سے ایک نجی یوٹیوب چینل پر ایک پوڈ کاسٹ میں کیا گیا ہے۔
پوڈ کاسٹ میں، عزیر یونس نے ہندوستان کے اپنے حالیہ دورے کے دوران اپنے تجربے کے ساتھ ساتھ اپنے وطن میں آسمان چھوتی مہنگائی، ہندوستان کی ڈیجیٹل ترقی اور ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بارے میں دیگر موضوعات کے حوالے اپنے خیالات ظاہر کئے ہیں۔ان کے اس ویڈیو کو ایک ذمہ دار پاکستانی شہری کے ایک آزادانہ طور پر تیار کردہ پوڈ کاسٹ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔اٹلانٹک کونسل کے ساؤتھ ایشیا سینٹر میں پاکستان انیشیٹو کے ڈائریکٹر عزیر یونس کا کہان ہے کہ ہندوستان کے لوگوں میں ایک مثبت توانائی ہے۔ یونس نے ویڈیو میں کہاہے ’’ہندوستانی توانائی سے بھرے ہوئے ہیں۔ وہ مثبت جذبات اور رویہ اپناتے ہیں ۔ہمارے ملک میںسیاست کے لئے ہمیں جھوٹ بولنے کی ٹرینگ دی جاتی ہے،جبکہ بھارت کے لوگ مثبت توانائی اور نظریہ رکھتے ہیں، یہ ہمارے لئے سیکھنے کی بات ہے، اگر ابھی نہیں تو پھر کبھی نہیں۔‘‘یونس نے ویڈیو میں کہا ہے کہ ’’ جو چیز ہندوستانیوں یہ مثبت رویہ پیدا کرتی ہے وہ ملک میں بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ معیشت کو ڈیجیٹل بنانے کی کوششیں ہیں۔ انھوںنے یہ بھی بتایا کہ جب اس نے ممبئی میں ایک موچی کو اپنے صارفین کو ڈیجیٹل ادائیگی کے قابل بنانے کے لیےکیو آرکوڈ اسکینر پیش کرتے ہوئے دیکھا تو وہ کتنے متاثر ہوئے، اس بات کو وہ لفظوں میں بیان نہیں کر سکتے ہیں۔پان کی دکان کے مالک کے پاس بھی کیو آر کوڈ سکینر تھا۔ میں نے دیکھا کسی کو بھی نقد کی ضرورت نہیں تھی۔ ‘‘ انھوںنے کہا کہ اس نے حیرت سے دیکھا کیونکہ لوگوں کے کھانے پینے کی جگہوں پر کچوریاں ہوتی ہیں اور لگتا ہے کہ وہ کھا پی کر اسی طرح چلے جاتے ہیں۔ اگرچہ وہ ابتدائی طور پر اس الجھن میں تھے کہ لوگ اپنے کھانے کی ادائیگی کے بغیر کیوں جا رہے ہیں، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سبھی کھیل ڈیجیٹل پیمنٹ کا ہے۔عزیر یونس کہتے ہیں ’’میں سوچ رہا تھا کہ دکاندار اپنے گاہکوں کو کھانے کی ادائیگی کیے بغیر جانے کی اجازت کیوں دے رہا ہے۔ پھر میں نے دیکھا کہ ایک کیو آر پے ٹی ایم کوڈ تھا اور گاہک صرف ادائیگی کرنے کے لیے کوڈ کو اسکین کر رہے تھے۔‘‘ خارجہ پالیسی کے ماہر نےبتایا کہ انھوں نےاپنے دوست سے پوچھا کہ دکاندار موصول ہونے والی ادائیگیوں پر کیسے نظر رکھتا ہے۔’’میں نے اپنے دوست سے جو سیکھا وہ یہ ہے کہ فن ٹیک نے ایسے سمارٹ اسپیکر فروخت کرنا شروع کردیئے ہیں جو مرچنٹ کے بٹوے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جب کہ مرچنٹ اپنے صارفین کی دیکھ بھال میں مصروف ہے، سمارٹ اسپیکر ہر بار ادائیگی موصول ہونے پر ایک اعلان کریں گے۔‘‘ انہوں نے کہا۔ اس پرمتعلقہ شو کے میزبان نے طنز کرتے ہوئے پوچھا ’’ یونس مستقبل میں کسی ریاست کا دورہ کر رہے تھے ؟ خارجہ پالیسی کے ماہر نے اثبات میں سر ہلایا۔ایک سوال کے جواب میںخارجہ پالیسی کے ماہر نے مزید کہا کہ’’ ہندوستان میں نقدی کا استعمال اب بھی ہوتا ہے، اور نقدی کی گردش درحقیقت ملک کی جی ڈی پی کا 13 فیصد ہے۔ جبکہ پاکستان میں، یہ 20 فیصد ہے‘‘ انہوں نے کہا۔ شو کے میزبان نے کہا،’’پاکستان کے پاس 5G نیٹ ورک بھی نہیں ہے، وہاں (بھارت میں) جیو نے تو کمال کر دیا ہے۔‘‘پاکستانی خارجہ پالیسی کے ماہر نے کہا کہ وہ اس بات سے بھی متاثر ہیں کہ کس طرح ہندوستان میں ہر کسی کے پاس صفر بیلنس اکاؤنٹس، یو پی آئی اور موبائل فون تک رسائی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہماری نسل کے پاس ڈیجیٹائزڈ آئی ڈی اور پاسپورٹ تھے، لیکن ہم نے اگلا قدم نہیں اٹھایا۔ ہم پیچھے رہ گئے۔ ہم نے یہ صرف اس کی خاطر کیا۔‘‘یونس نے بتایا’’یو پی آئی پر رقم بھیجنے کی لاگت صفر ہے کیونکہ ہندوستانی حکومت ضروری انفراسٹرکچر فراہم کرتی ہے۔ ہندوستانی حکومت کا حکم ہے کہ آدھار کارڈ کے ساتھ ہر شہری کو صفر بیلنس، صفر لاگت والے بینک اکاؤنٹ کا حق حاصل ہونا چاہئے،‘‘یونس نےواضح کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ان کے لیے ایک نئی چیز ہے کہ ہندوستان کے دور دراز دیہاتوں میں رہنے والے لوگوں کے پاس آدھار کے ساتھ ساتھ زیرو بیلنس بینک اکاؤنٹس ہیں۔’’یہ وہی ہے جو مودی حکومت نے ہندوستان میں کیا ہے۔ اس وقت اس پر تنقید کی گئی تھی اور اس پر سرکاری پیسہ ضائع کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ بینکوں سے سبسڈی کے ساتھ ، صفر بیلنس کے ساتھ بینک اکاؤنٹس کھولنے سے کچھ نہیں ہوگا،‘‘۔انہوں نے کہا ’’حکومتی سبسڈیز نے ڈیجیٹل والیٹس کو زیادہ مقبول بنایا، ڈیجیٹل ذرائع سے خدمات کی فراہمی کی حوصلہ افزائی کی، بدعنوانی کو کم کیا اور زیادہ ڈیجیٹل ادائیگیوں کو فعال کیا۔ کیونکہ اب، آپ ای-والٹ پر نہ صرف بینک اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں بلکہ انشورنس کے ساتھ ساتھ کریڈٹ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘ اٹلانٹک کونسل کے ساؤتھ ایشیا سینٹر میں پاکستان انیشیٹو کے ڈائریکٹر عزیر یونس کہتے ہیں ’’میرے دادا کا آبائ گاؤں ہندوستان کی ریاست گجرات کے شہر راجکوٹ کے قریب گھید بگاسرا ہے۔ وہاں کی آبادی صرف 3000 ہے ،لیکن میں نے دیکھا اسے ایل ٹی ای 4 جی تک رسائی حاصل ہے۔وہاں سے پاکستان لوٹنے کے بعد میرے والد نے مجھ سے اس درگاہ میں حاضری دینے کی بات پوچھی ، جہاں میرے آباؤ اجداد مدفون ہیں۔ میں انھیں تفصیل کے ساتھ پوری جانکاری دی ۔میں نے انھیں یہ بھی بتایا کہ درگاہ کے ساتھ والی پھولوںکےدکان سے جب پھول خریدے تو اس کے مالک نے پیمنٹ کی غرض سے ہمارے سامنے ایک کیو آر کوڈ پیش کر دیا۔‘‘ (اے این آئی)