Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 11th March
کوئی بھی قوم جب شقاوت، بد خلقی، حرام کاری، زنا کاری، اور برائی وغیرہ کی حدوں کو پار کرلیتی ہے تو بلا شبہہ اللہ رب العالمین اس پہ دوسری قوم کو مسلط کردیتا ہے، اگر وہ ایک سلجھی ہوئی اور سمجھدار قوم ہے، تو ڈوبنے کے بعد دوبارہ ابھرنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن اگر اس کے اندر محاسبہ کرکے، خود کو سدھارنے اور حالات سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہوتی ہے تو پھر وہ تاریخ کے صفحات میں دور کہیں اس طرح سے گم ہوجاتی ہے کہ لوگ اگر اسے پڑھنا بھی چاہیں تو آسانی سے نہ مل سکے۔
وطن عزیز ہندوستان میں مسلمانوں کی داستان بھی کچھ اسی قسم کی ہے، اگر یہ کہا جائے کہ آج مسلمانوں پہ جتنی بھی مصیبتیں اور پریشانیاں آرہی ہیں یہ خود مسلمانوں کی اپنی کمائی ہے، تو شاید غلط نہیں ہوگا۔ اس صورتحال کی وجوہات کوئی ایک دن یا دو دن کی پیداوار نہیں ہیں۔ ۔مسلمان اپنے دینی تقاضوں سے جس طرح دور ہوتے چلے گئے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ باتیںبے بنیاد ہیں۔اگر یقین نہ آئے تو کبھی اپنے اردگرد کے علاقوں کا دورہ کرکے دیکھئے۔ معلوم ہوجائے گا کہ اسلام کی امانت لوگوں کے سینوں میں کس قدر محفوظ ہے۔اگر آپ گاؤں میں رہتے ہیں ، تو اپنے گاؤں سمیت دوسرے گاؤں کا موقع نکال کے دورہ کریں ، آپ کو یہ دیکھ کے بہت تعجب ہوگا کہ بیس بیس سال کے مسلمان لڑکوں کو سورہ فاتحہ تک نہ یاد ہوگا، ان کے ہاتھوں میں کلاوے ہوں گے، ان کے گردنوں میں ایک میلی سی تعویذ لٹک رہی ہوگی، وہ آپ کو آوارہ گردی کرتے ہوئے ملیں گے، ان میں سے بعض ایسے ہوں گے جن کو یہ تو معلوم ہوگا کہ ان کا مذہب اسلام ہے، لیکن یہ بالکل معلوم نہ ہوگا کہ اسلام کیا ہے۔پھر اگر تھوڑا اور آگے بڑھیں گے، گاؤں سے نکل کے چھوٹے موٹے قصبے میں پہونچیں گے، تو وہاں آپ کو تھوڑے بہت اگر پڑھے لکھے ملیں گے، تو یا تو وہ اسلام کے بارے میں بہت کم جانیں گے، اور اگر جانیں گے بھی تو فکر معاش نے ان کو اس پہ عمل کرنے سے روک رکھا ہوگا۔
ان سب باتوں سے قطع نظر، آپ جتنا آگے بڑھتے جائیں گے، آپ کو برائی کی شرح بڑھتی ہوئی نظر آئے گی، آپ شہر میں پہونچیں گے تو آپ کو برائیاں بہت زیادہ معلوم ہوں گی۔ چھوٹی چھوٹی بچیاں کم سنی کے عمر سے ہی بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کے رشتوں سے نہ صرف واقف ہوتی ہیں بلکہ بخوبی اس کا تجربہ بھی کرچکی ہوتی ہیں ، ماں باپ کو بھی کوئی ٹینشن ہی نہیں ہوتا کہ بچی پڑھنے جارہی ہے یا اپنے کسی بوائے فرینڈ کے ساتھ پارکوں میں گھومنے جارہی ہے۔اس صورتحال کے اثرات جس طرح ہمارے معاشرے پر مرتب ہو رہے ہیں ، اس سے بھلا کون واقف نہیں ہے ؟
آج مسلمان اپنے آپ پہ غور کریں ، کون سی ایسی برائی ہے جو ان کے اندر نہیں پائی جاتی ہے، پھر کیوں نہ ان کے اوپر اللہ رب العالمین ان سے زیادہ بروں کو مسلط کرے؟ اللہ تعالی نے انہیں’’خیر امت ‘‘کا لقب دیا تھا، لیکن کیا حقیقی معنوں میں انہوں نے اپنے افراد کی اس طرح سے تربیت کی کہ’’ خیر امت کا لقب‘‘ ان کے اوپر فٹ آ سکے ؟ حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے کہ مکمل طور سے یہ امت بری ہو، اب بھی اس امت میں خیر باقی ہے، پھر بھی اس امت کو ضرورت ہے کہ اسے اس کا بھولا بسرا سبق پھر سے یاد دلایا جائے، اسے بتایا جائے کہ وہ قافلہ جو حضور اکرم محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے چلا تھا، آج کہیں نہ کہیں اپنا نشان کھوتا جارہا ہے۔دین کہیں فضاؤں میں گم ہے، دین کے نام پہ زمین میں خرافات رقصاں ہیں ، اسے بتایا جائے کہ اخلاق کیا ہے، عزت کیا ہے، اور عزت کی حفاظت کیا ہے۔ اسے بتایا جائے کہ تمہیں دنیا میں ایک مقصد کے خاطر اتارا گیا ہے، اور مقصد صرف اور صرف یہی ہےکہ ’’ لوگوں کو بھلائی کا حکم دو، برائی سے بچاؤ‘‘۔ انہیں بتایا جائے کہ اے لوگو! لا الہ الا اللہ کہہ دو، فلاح پاجاؤگے، برائیوں سے بچو اور اپنے معاشرے کو صحتمند بناؤ ۔
اب بھی اگر مسلمان چاہتے ہیں ، کہ وہ خیر امت ہی رہیں تو انہیں اپنی نسلوں کو تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ دین کا خوگر بنانا ہوگا، انہیں صحیح غلط کا فرق سمجھانا ہوگا، انہیں پھر سے حلال و حرام کی تمیز سکھانی ہوگی۔ انہیں اخلاق کی اعلی قدروں پہ فائز کرنا ہوگا، تبھی جاکے حقیقی کامیابی نصیب ہوپائے گی، ورنہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان پہ گھیرا تنگ ہوتا جائے گا، اور اخیر میں سر پٹک پٹک کے دعائیں مانگنے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوگا۔تب تک کافی دیر ہوچکی ہوگی !
***********************