Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 03 March
نئی دہلی:03مارچ (ایجنسی ) سپریم کورٹ نے جمعہ کو اس عرضی پر فوری سماعت کرنے سے انکار کر دیا جس میں کرناٹک کے پری یونیورسٹی کالجوں میں طالبات کو حجاب پہن کر سالانہ امتحانات میں شرکت کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ایک خاتون وکیل نے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی بنچ کے سامنے اس معاملہ کا تذکرہ کیا تھا۔ وکیل نے کہا کہ پانچ دن بعد امتحان ہے اس لئے عرضی پر فوری سماعت کی جانی چاہئے۔بنچ نے وکیل سے کہا کہ آپ آخری تاریخ کو آئیں گے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ہولی کی تعطیلات کے بعد اس معاملے کی سماعت کے لئے نئی بنچ تشکیل دی جائے گی۔ خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے 22 فروری کو کرناٹک میں پری یونیورسٹی کالجوں کو حجاب پہن کر سالانہ امتحانات میں شرکت کی اجازت دینے کی عرضی پر غور کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔عرضی گزاروں کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈوکیٹ شادان فراست نے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ سے استدعا کی کہ طالبات کو 9 مارچ سے شروع ہونے والے سرکاری کالجوں کے سالانہ امتحانات میں شرکت کرنا ہے۔ سپریم کورٹ نے وکیل سے پوچھا کہ انہیں امتحان دینے سے کیوں روکا جا رہا ہے؟ وکیل نے بتایا کہ حجاب پہننے کی وجہ سے۔ انہوں نے کہا کہ طالبات کا ایک سال پہلے ہی ضائع ہو چکا ہے اور اگر کوئی ریلیف نہ دیا گیا تو وہ ایک اور سال کھو دیں گی۔خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے 23 جنوری کو کرناٹک میں پری یونیورسٹی کالجوں کے کلاس رومز میں حجاب پر پابندی کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر غور کرنے کے لئے 3 ججوں کی بنچ قائم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے پچھلے سال اکتوبر میں کرناٹک کے پری یونیورسٹی کالجوں میں کلاسوں میں کچھ مسلم طالبات کے حجاب پر پابندی کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر ڈویژن بنچ کے ججوں جسٹس ہیمنت گپتا اور سدھانشو دھولیا کی نے الگ الگ فیصلہ دیا تھا۔جسٹس گپتا، جو اب ریٹائر ہو چکے ہیں، نے کرناٹک حکومت کے سرکلر کو برقرار رکھا اور کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کو خارج کر دیا۔ تاہم جسٹس دھولیا نے کرناٹک حکومت کے پری یونیورسٹی کالجوں کے کلاس رومز کے اندر حجاب پہننے پر پابندی لگانے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آئین بھی اعتماد کا دستاویز ہے اور اقلیت نے اکثریت پر اعتماد کیا ہے۔جسٹس دھولیا نے اپنے فیصلے میں کہا ’’ہم جمہوریت اور قانون کی حکمرانی میں رہتے ہیں اور جو قوانین ہم پر حکمرانی کرتے ہیں انہیں ہندوستان کے آئین کو منظور کرنا چاہیے۔ اعتماد ہمارے آئین کے بہت سے پہلوؤں میں سے ایک ہے۔ ہمارا آئین بھی امانت کا دستاویز ہے۔ اقلیت نے اکثریت پر اعتماد کیا ہے۔‘‘ بنچ نے تب کہا تھا کہ چونکہ اختلاف رائے ہے، اس لئے یہ معاملہ بڑی بنچ کی تشکیل کے لئے چیف جسٹس آف انڈیا کے سامنے رکھا جائے گا۔