خواتین اسلام !بے اولاد جوڑوں کا خیال رکھیں

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 13th March

 مفتی عین الحق امینی قاسمی
نائب صدر جمعیۃ علماء بیگوسرائے

مذہب اسلام کے اندر نکاح کے اہم مقاصد میں نہ صرف جائز طریقے پر جنسی تسکین کو پیش نظر رکھا گیا ہے ؛بلکہ توالد وتناسل بھی اسلامی نکاح کے مقاصد میں خصوصیت سے شامل ہے ، اِسی لئے شادی کے بعدمیاں بیوی کے لئے اولاد کا حصول پہلی خواہش ہوتی ہے ،کسی کو اللہ جلد اولاد سے نوازدیتا ہے اور کسی کو کچھ وقفے سے دیتا ہے ،کبھی کسی کو صرف بیٹا یا صرف بیٹی عطا کرتا ہے اور اکثر کو بیٹا بیٹی دونوں طرح کی اولاد سے نوازتا ہے ،جب کہ بعض جوڑوں کواولاد کی نعمت سے خدامحروم رکھتا ہے ۔البتہ معاشرتی زندگی میں عزت واحترام اور دوسرے سماجی حقوق کے حق دار جتنے صاحب اولاد ہیں ،اُتنا ہی مستحق بے اولاد جوڑے بھی ہیں،سماج میں عزت واحترام اور دیگر حقوق کے حوالے سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے ؛ بلکہ بعض جہتوں سے لاولد جوڑے سماجی تعاون کے زیادہ مستحق ہیں ،جن سے سہارا پا کر وہ خود کے اندر حوصلہ جٹا سکیں اور محلہ ٹولہ میں ایک عزت دار فرد کی حیثیت سے زندگی گذار نے کا احساس اُن کے اندر راہ پاسکے،وہ کسی لمحے خود کو تنہا محسوس نہ کریں ،اُنہیں معاشرے میں بے اولادی کے طعنے اور رُسوا کردینے والے چبھتے جملوں سے بچانے کی ضرورت ہے۔ اولاد اللہ کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک بے مثال نعمت ہے اور اُس کی چاہت بھی فطری ہے ،مگرایک طرح کی نعمتوں سے اللہ سبھوں کو خوش نہیں کرتا ،اُس کے یہاں ’’ فیصلے ‘‘کا دخل ہے ،مومن اللہ کے اُس فیصلے کا دل سے نہ صرف احترام کرتا ہے ؛بلکہ اپنی زندگی اور زندگی کی خواہشات کو اُس کی رِضاکے تابع بنا دیتا ہے ،بندئہ مومن حکمتِ خدا وندی پر یقین بھی رکھتا ہے اور اُسے تسلیم بھی کرتا ہے ،اولاد کا دینا یا نہ دینا بھی اللہ رب العالمین کے فیصلے سے ہوتا ہے ،اُ س کی حکمت ہے کہ وہ کسی کو اولاد دیتا ہے اور اولاد کو اُس کے لئے آزمائش بنا دیتا ہے ،آزمائش کی راہ سے اُس کے مرتبے کو بڑھا تا اور نکھارتا ہے اور بعضوں کو اِن آزمائشوں سے پاک رکھ کرتقوی وکمالات کے اکتساب کا براہ راست مواقع عطا فرماتا ہے ۔
انسانی زندگی میں صرف صاحبِ اولاد ہونا ہی کافی نہیں ہے ، بلکہ انسانی اخلاق کو برتنا اور اُس کامظاہرہ کرنا بھی انسان کی افضلیت میں شامل ہے، انسانی اخلاق کی ایک جہت یہ ہے کہ سماج کے ہر طبقے سے شرافت کا برتا ؤ ہو ،آدمیت اور حسن سلوک کا رویہ اپنا یا جائے ! ہمارے یہاں معاشرے میں ایسے بھی کم فہم لوگ ہیں جو بے اولاد جوڑوں کے لئے اذیت کا سبب بنتے رہتے ہیںاور بے وجہ طعن وتشنیع کر لاولد جوڑوں کے لئے ایذا رسانی کے گناہ میں ملوث پائے جاتے ہیں،یوں تو ایذارسانی کی ساری ہی شکلیں قابل ترک ہیں ؛ مگر بے اولادوں کو اولاد کا طعنہ دے کر اُن کی ایذا رسانی کے درپے ہونا ،شاید اللہ کے دربار میں بہت زیادہ ناپسندیدہ عمل ہے ۔ اِس معاملے میں مردوں سے زیادہ عورتیں اِس گناہ بے لذت میں ملوث ہوتی دیکھی جاتی ہیں ،وہ بے وجہ اور بے وقت بھی اِ س پہلو کو اُن جوڑوں کے سامنے چھیڑ کر بظاہر لطف لیتی ہیں اور غیر معمولی اذیت دینے کے گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتی ہیں ،جب کہ یہ بات تقریباً ہر مرد وعورت کو معلوم ہے کہ کسی مرد یا عورت کے اختیار میں اولاد پیدا کرنا نہیں ہے ؛بلکہ یہ قدرت صرف اللہ کو حاصل ہے ،اِس علم وجانکاری کے باوجود بے اولاد جوڑوں کو کوسنا ،گندے اور بھدے الفاظ کا استعمال کرنا اور اُسے مرد کے لئے نحوست کی علامت یا بدنصیبی قرار دینا ،انسانی اخلاق سے گری ہوئی باتیں ہیں ۔ کبھی ساس کی طرف سے ،کبھی نندوں کی طرف سے اور کبھی ٹولہ محلہ کی بعض خواتین کی طرف سے بے اولاد جوڑوں کو تلخ جملوں اور نشتر بھرے لفظوں سے صبح وشام دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ معاشرے کے اِ س مذموم رویے سے لاولد شخص اپنے معاصرین میں ہلکا پن محسوس کرتا ہے توبے اولاد دوشیزائیں اپنے گھر خاندان اور دور نزدیک کے رشتہ داروں کی نگاہ میں کانٹے کی طرح چبھتی رہتی ہیں۔
معاشرے کی اس بے رحمی سے بسا اوقات جانوں کا نقصان بھی ہوتا رہا ہے ،کبھی مرد نے غلط قدم اٹھائے تو کبھی خاتون نے خود کشی کر سماجی بد اخلاقی اور معاشرتی بے حسی کو آشکارا کیا ہے ۔ بے اولاد جوڑوں پر بے اولادی کے طعنوں کا اثر بھی فطری ہے ،مگر سماجی اور گھر خاندان کے دباؤ کی وجہ سے شادی شدہ جوڑے نفسیاتی مریض بھی ہورہے ہیں ۔ اُن کے مزاج اور لائف اسٹائل نے سماج کو بے بھروسہ کردیا ہے ۔ضرورت ہے کہ شادی شدہ نوجوان جوڑے بھی اِس معاملے کو لے کر اتنے سر یس نہ ہوں ،سماجی ہم ٓاہنگی کو بنائے رکھیں ،معاشرے کا ہر فرد یکساں نہیں ہوتا ،اچھے اور برے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں،جو مرد وخواتین اُنہیں واقعتاً ٹار چر اگر کرتے ہیں تو اُن کی باتوں کو نظر انداز کریں اور ایسوں کو ذہنی مریض مان کر آگے بڑھیں اور اللہ سے اپنے رشتوں کو مضبوط رکھیں اور اور یہ سوچیں کہ میرا وقت ضرور کمزور ہے ؛مگر میرا رب کمزور نہیں ہے ۔اللہ سے ناممکن کچھ بھی نہیں ،وہ بے جان میں بھی جان ڈالنے اور جان والی شئی کو بے جان کرنے پر قادر ہے ،اس لئے خیر کی امید کے ساتھ زندگی جینا سیکھنا چاہئے۔ یہاں اُن خواتین کو بھی تھوڑا صبر وتحمل سے کام لینا چاہئے جو اپنے شادی شدہ جوڑوں کے لئے اولاد کی خواہش رکھتی ہیں اور یہ سمجھنا ہوگا کہ اولاد کا حصول اُن کے اختیار کی چیز نہیں ہے ،ہاں اسباب کے طور پر اُن جوڑوں سے ٹپس اپنانے کی صلاح دی جاسکتی ہے ؛ مگر اولاد کے معاملے میں اسباب کو اپنا نے کے باوجود محرومی پر انہیں رسوا کرنے اور ذلیل وکمتر گرداننے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے ؛ بلکہ اُنہیں حوصلہ دینے اور یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اللہ اگر ایک نعمت لیتا ہے تو اُس کے بدلے وہ دوسری افضل ترین نعمتوں سے نوازتا ہے ،اُس کے یہاں مے خانے کا محروم بھی محروم نہیں رہتا ۔دنیائے انسانیت میں بہت سے ایسے گھر ہیں جہاں اولاد کی پیدائش نہیں ہوسکی ہے ؛ مگر وقت سب کا گذر جاتا ہے ،البتہ اللہ سے اس کے لئے دعا ضرور کرنا چاہئے ؎
تومری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ ترے پیمانے میں ہے ماہ تمام اے ساقی
اگر ہم انسانوں میں درد دل نہیں رہا تو ذہن میں رکھ لیجئے کہ انسانیت کے فرائض ہم سے پورے نہیں ہوسکتے ،اگر ہماری بول سے کسی بے اولاد جوڑے کا دل دکھتا ہے تو یہ انسانیت سے بہت گری ہوئی بات ہے ،آج ہم اگلے کی جس محرومی پہ ہنس رہے ہیں ،یا ذلیل ورسوا کررہے ہیں ،اللہ نہ کرے کہ یہ محرومی ہمارے گھر کے کسی قریبی فرد کا منھ دیکھ لے ۔ انسانیت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اگر کوئی کسی اعتبار سے کمزور ہے یا کسی نعمت سے محروم ہے تو ہم اس کے لئے کتنے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں ،اِس پہلو کو تلاشنا چاہئے،ایسے مواقع پر دوسروں کا سہارا بننے کا فرض نبھا نا چاہئے ، خاص کر بے اولاد جوڑوں سے ایسی بات کہنے سے خود بھی بچنا چاہئے ،جن باتوں کو وہ سننا بھی ناپسند کرتے ہیں ،حقیقت میں ایسی باتوں کو دہرانے سے کوئی فائدہ نہیں جن کا اختیار ہم میں سے کسی کے پاس نہیں ،جہاں سارے انسان بے دست وپا ہیں ۔ اگر حصول اولاد کے سلسلے سے کوئی مناسب بروقت مشورہ بھی دیا جائے تو لہجے میں احساس خیر خواہی پنہاں رکھ کر مشورہ دیجئے ۔ کچھ بے اولاد خواتین ایسی بھی ہیں جنہوں نے اپنے رشتہ داروں سے بچہ یا بچی گود لیا ہوا ہے ،یہ جذبہ قابل قدر بھی ہے اور قابل رحم بھی ،ایسے جذبات کی سماج میں پذیرائی ہونی چاہئے،گود لیا ہوا یہ بچہ اپنے حقیقی ماں باپ سے ہی منسوب ہوگا ،ایسی تمام جگہوں پر جہاں ماں باپ کے نام کی صراحت کی ضرورت ہوگی وہاں اصلی ماں باپ کا نام ہی واضح ہونا ضروری ہے ،تاکہ بچے کی نسل محفوظ رہے ،البتہ خدمات اور لین دین کے معاملے میں جانبین سے دونوں مجاز ہوں گے ۔بہر حال! اِس مرحلے میں بھی اصلاح پسند خواتین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ گود لینے والے جوڑوں کی حوصلہ افزائی کریں اور کسی بھی طرح کی نشتر زنی کرنے یا انہیں نیچا دکھانے سے گاؤں محلے کی خواتین کو روکیں اورسمجھا ئیں کہ دل جوڑنا عبادت ہے ،دل توڑنا گناہ ہے ۔