’’دکھاوا ‘‘ کئی مسائل کو جنم دیتا ہے…

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 11th March

سیما شکور(حیدرآباد)

موجودہ دور کا سب سے بڑا المیہ دکھاوا ہے۔ دکھاوے کی عادت نے کئی مسائل کو جنم دیا ہے۔دکھاوا ایک ایسی انسانی کمزوری ہے جس نے لامتنا ہی مسائل کھڑے کردئیے ہیں۔ اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے برتر ثابت کرنے کیلئے اپنی چادر سے زیادہ پائوں پھیلانا کہاں کی عقل مندی ہے۔ آج پورا معاشرہ دکھاوے جیسی برائی میںمبتلا دکھائی دیتا ہے۔دکھاوے کی عادت آپ کے احساس کمتری میںمبتلا ہونے کا کھلا ثبوت ہے۔ شادی بیاہ میں بے تحاشا فضول خرچی کی جاتی ہے۔ اپنی شان وشوکت دکھانے کیلئے، اپنی واہ واہ کی خاطر لوگ اپنی بساط سے بڑھ کر خرچ کرتے ہیں۔قرض لے کر اپنی اندھی خواہشات کو پورا کیا جاتا ہے۔ مہنگے مہنگے کارڈز چھپوائے جاتے ہیں تاکہ دنیا ان سے مرعوب ہو، اپنی خواہشات کی غلامی کرنے والے لوگ سود پر بھی قرض لیتے ہیں وہ اسے بھی برا نہیں سمجھتے ،ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اخراجات کئے جاتے ہیں۔ شان وشوکت دکھانے کی دوڑ میں ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے نکلنا چاہتا ہے۔ انہیں حرام اورحلال کی بھی پرواہ نہیں ہوتی۔ ہم آخر کس راستے کی طرف چل پڑے ہیں۔ سادگی مسلمان کا شعار ہے، اس بات کو ہم فراموش کرچکے ہیں۔ ایک دوسرے کی اندھی تقلید ہمیں کس گہری کھائی کی طرف لے جارہی ہے، ہم اس سے بے خبر ہیں۔ دکھاوے کی عادت نے ہماری آنکھوں پر بے حسی کی پٹی باندھ دی ہے۔ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کیلئے لوٹ کھسوٹ اور رشوت کو بھی برا نہیںسمجھتے۔
مردوں کی بہ نسبت خواتین دکھاوے کی زیادہ خواہش مند ہوتی ہیں۔ معاشرے کو اس نہج پر لے کرجانے میں خواتین زیادہ قصوروار ہیں۔ مرد خواتین کی بیجا خواہشات کو پوراکرنے کیلئے ناجائز ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ ماں ، بہن ، بیوی، اور بیٹی جیسے رشتوں کو خوش کرنے کیلئے مرد ہر غلط ذریعہ استعمال کرتے ہیں۔ دکھاوے کا زہر ہم میںمکمل طور پر سرایت کرچکا ہے۔ دکھاوے کی دوڑ میںایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا جنون ہمیںتنزلی کی طرف ڈھکیل رہا ہے۔ ہم اپنا سکون وچین برباد کرچکے ہیں۔دکھاوے کی دلدل میںہم دھنستے ہی جارہے ہیںاور ہمیںکچھ خبر نہیں ہے کہ ہم جہالت کی انتہا کوچھوچکے ہیں۔
دکھاوے اورنمود ونمائش کی اس تعفن زدہ فضا میں پروان چڑھنے والی نئی نسل سے ہم کس طرح توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ اس روش کو اختیار نہیں کریں گے۔وہ جو کچھ اپنے بڑوں کو کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، وہ وہی کچھ کریں گے۔ہم نے ہمیشہ نئی نسل کو ہی ہر برائی کیلئے مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جیسے بیج ہوتے ہیں پھل بھی ویسے ہی درخت میںآتے ہیں،دکھاوے کے عفریت نے سکون وچین کو نگل لیا ہے۔ ایک نامعلوم سی بے چینی اور بے سکونی کی چادر میں ہم چھپ چکے ہیں،خوشیاں ہم سے دور ہوچکی ہیں اور چہرے بے نور ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نے ہم سے ہمار اسکون وچین چھین لیا ہے۔ دکھاوے کی دھن نے ہمیں بیماریوں میں جکڑلیا ہے… ہر وقت کی فکر و تردد اس کی وجہ ہے ہم اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر شاکر نہیں ہیں پھر سزا تو ملنا ہی تھی۔ خواہشات کی امر بیل بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ سادگی ایمان کا لازمی جزہے مگر ہم اس سے کوسوں دور ہیں۔ بناوٹ اورنمودونمائش ہی اب ہمارا اوڑھنا اور بچھونا ہوکر رہ گیا ہے۔ ہم مصنوعی زندگی جی رہے ہیں۔ نمودونمائش کی دیمک ہماری خوشیوں کو دھیرے دھیرے کھارہی ہے، کھوکھلا کررہی ہے ہماری شخصیت کو، ہم نے خود ہی بے سکونی کی دعوت دی ہے۔ اگر ہم سادگی کے حسین پھولوں سے اپنی زندگی کومزین کریںتو ہم سکون واطمینان پاسکتے ہیں۔
اب تو محبتیں بھی بس دکھاوے کی ہوکر رہ گئی ہیں۔ نیتیں ہی ٹھیک نہیں ہیں۔ دکھاوے کامیل ملاپ، اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اوربس اتنا ہی رہ گیا ہے ہمار اتعلق ایک دوسرے سے ، زندگی صرف بناوٹ کانام ہوکررہ گئی ہے۔ یہ کیسی زندگی ہے کہ یہاں سب ایک دوسرے کو استعمال کررہے ہیں۔ حقیقی خوشیوں سے دور بناوٹ کی زندگی جی رہے ہیں۔ہماراعمل اور ہماری نیت دونوں آپس میں میل نہیں کھارہے ہیں کیونکہ ہمارااخلاق بھی دکھاوے کا ہوکررہ گیا ہے۔ ہم سامنے تو کسی شخص کی بہت عزت کرتے ہیں لیکن جوں ہی وہ رخصت ہواہم اس کی برائیاں شروع کردیتے ہیں ،اسے طرح طرح کے ناموں سے پکارتے ہیں،اس کا مذاق اڑاتے ہیں یہ جھوٹا اخلاق صرف دکھاوے کیلئے ہوتا ہے۔ اس طرح کرنے سے اخلاقی برائیاں پھیل جاتی ہیں ایک دوسرے پر سے اعتماد ختم ہوجاتا ہے۔منافقت اور دکھاوے کا چولی دامن کاساتھ ہے، جس انسان میں منافقت ہوگی وہی انسان دکھاوا کرسکتا ہے۔
کچھ لوگ توعبادتیں بھی دکھاوے کی کرتے ہیں، صدقہ خیرات بھی دنیا والوںکی واہ واہ کیلئے ہوتاہے اس طرح کرنے سے اللہ کہاں راضی ہوتا ہے۔ بلکہ اللہ کا عتاب نازل ہوتا ہے۔ ہماری زندگیوں میں پاکیزگی کہاں رہ گئی ہے۔ ہمارے اعمال ہماری نیتیں سب الگ الگ ہیں۔ ہم یہ کس طرح کے گورکھ دھندے میں پڑ کررہ گئے ہیں۔ ہمارا مقصد اللہ کو راضی کرنا نہیں ہے۔ دنیا والوں سے اپنی تعریفیں سننا زیادہ پسند ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی ذرہ برابر پروا ہ نہیں ہے۔
دکھاوے کے خاردار پودے میں منافقت کا زہر بھرا ہوتا ہے، ہمارے اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں کو دیکھتے ہیں۔ ٹوٹے پھوٹے مکانوں میں بھی خوشیاں رقص کرسکتی ہیں جہاںدکھاوا نہ ہو وہاں لوگ چین کی نیند سوتے ہیں۔ کیونکہ ان کا ضمیر مطمئن ہوتا ہے، ان کے ضمیر پرکوئی بوجھ نہیں ہوتاہے۔ دکھاوے کا جھوٹ سے بھی گہرارشتہ ہے، دکھاوا کرنے والا شخص کبھی بھی سچا نہیں ہوسکتا۔ دکھاوا کرنے والے کی بات جھوٹ سے شروع ہوکر جھوٹ پر ہی ختم ہوجاتی ہے۔انسان جھوٹ بولنا چھوڑدے تو ہر برائی خود بخود ختم ہوجایا کرتی ہے۔ سماجی کام کرنے والے بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو صرف شہرت اورنام ونمود چاہتے ہیں۔ ان کی نیت میں کھوٹ ہوتا ہے، وہ لوگوں سے مخلص نہیں ہوتے نہ ہی انہیں کسی سے ہمدردی ہوتی ہے، انہیںصرف اپنی شہرت عزیز ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو کوئی پسند نہیں کرتا۔ ایسے منافق لوگ پہچان لیے جاتے ہیں۔ لوگوں کے دلوں میں ان کیلئے کوئی عزت نہیں ہوتی انہیںصرف اپنے مطلب سے مطلب ہوتاہے۔
اگرآپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ سے پیار کریں، آپ کی عزت کریں تو آپ سادہ مزاج، سادہ دلی کواختیار کیجئے یقینا لوگ آپ کے گرویدہ ہوجائیںگے۔ خلوص سے دل سے اور انسانیت کے ناطے آپ دوسروں کی مدد کیجئے ان کو دلاسہ دیجئے، ان کی مدد کیجئے اگر مالی طورسے آپ کسی کی مدد کرنے کے قابل نہیں تودلبرداشتہ نہ ہوں۔تسلی کے دو بول بو ل کر مصیبت زدہ کو ہمت تو دلا سکتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی تو کرسکتے ہیں۔ہمیں ایک دوسرے کی توجہ درکار ہوتی ہے۔ کسی کو مصیبت میںدیکھ کر کنارہ کشی مت اختیار کیجئے، یہ انسانیت کا شیوہ نہیں۔ آپ چاہیں تو لوگوں کی صحراجیسی زندگی میں خوشیوں کے پھول کھلا سکتے ہیں۔ آپ چاہیں تو معاشرے کی سوچ بدل سکتے ہیں،اس کیلئے صرف آپ کامخلص ہونا ہی کافی ہے۔ اگر آپ نے لوگوں کی خدمت کو اپنا وطیرہ بنالیا تو اللہ تعالیٰ ضرور آپ کی مدد کریں گے۔ ہم چاہیں تو بہت ساری اخلاقی برائیاں ختم ہوسکتی ہیں۔ برائیوں کے خاتمے کیلئے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، معاشرے میںجب ہی سدھار آ سکتا ہے، جب سب متحد ہوکر کام کریں۔
سمندر میں راستے بھی بن سکتے ہیں، سمندر کے کئی رنگ بھی ہوسکتے ہیں۔ صحرا میںگلاب بھی کھل سکتے ہیں۔ پتھروں میں شگاف بھی پڑسکتے ہیں۔ چٹانوں پہ درخت بھی اگ سکتے ہیں تو پھر ہم انسان ہو کر اشرف المخلوقات ہوکر کیا کسی کے آنسو بھی نہیں پونچھ سکتے۔ کیا ہم اتنے کمزور ہیں نہیں ایسا نہیں ہے۔ دراصل ہمارے اندر بس ارادے کی پختگی کی کمی ہے ورنہ ہم اتنے کمزور نہیں ہیں۔
اگرآپ چاہتے ہیںکہ دکھاوے کا خاتمہ ہوتو دکھاوے اور نمودونمائش کی محفل کوخیر باد کہہ دیں۔ اگرآپ نے ایسی محفلوں میںشرکت کی توآپ بھی قصوروار کہلائیں گے۔ آپ برائی کو بڑھاوا دینے والے کہلائیں گے۔ آپ میںاتنی اخلاقی جرأت تو ہونی چاہئے کہ آپ غلط کو غلط کہہ سکیں… اگرآپ خاموش رہے تو یہ خاموشی ایک مجرمانہ خاموشی کہلائے گی۔ آپ اپنے طور پر جہاںتک ہوسکے برائی کو بڑھنے سے روکیے۔یقینا اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہوںگے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد آپ کے ساتھ ہوگی اورآپ یقیناآخرت میںسرخرو ہوںگے۔ بات صرف پہلا قدم اٹھانے کی ہے۔ راستے خودبخود آسان ہوتے چلے جائیںگے۔انشا ء اللہ
٭٭٭