Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 20th March
ضیاءالمصطفی نظامی
جنرل سکریٹری آل انڈیا بزم نظامی
سال اور مہینوں میں کچھ ایسے ایام آتے ہیں جن کے ساتھ پوری کائنات کا مقدر وابستہ ہوتا ہے ۔ ایسا ہی دل پزیر لمحہ وہ تھا جب غارحرا میں ہدایت خداوندی کی آخری کرن داخل ہوئی اور نبی اکرمﷺاس کےامین و حامل بنے ، اس عظیم لمحہ کا امین ہے ماہ رمضان المبارک، روزوں اور تلاوت قرآن کے لیے اس مہینہ کا انتخاب اسی لیے ہوا کہ اس مہینہ کی ایک صبح میں سحر کے وقت کلام الہی کی پہلی کرن نے قلب محمدیﷺکوروشن ومنور کر دیا ، اس مبارک مہینہ کی عظمت و برکت کا تمام راز صرف ایک چیز میں پوشیدہ ہے ، وہ یہ کہ اس مہینہ میں قرآن مجید نازل کیا گیا، یعنی نزول شروع ہوا، پورا لوح محفوظ سے اتار کر جبریل امین علیہ السلام کے سپرد کیا گیا ، یا نزول کا فیصلہ صادر کیا گیا، یہ عظیم الشان واقعہ اس بات کا متقاضی ہوا کہ اس ماہ کے دنوں کو روزں کے لیے اور راتوں کو قیام و تلاوت کے لیے مخصوص کر دیا جائے، اسی بات کو قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے یوں بیان فرمایا۔ شَهرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيْنَتِ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الْشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ( البقره ۲:۱۸۵) ماہ رمضان المبارک جس میں اتارا گیا قرآن اس حال میں کہ یہ راہ حق دکھاتا ہے لوگوں کو اور (اس میں)روشن دلیلیں ہیں ہدایت کی اور حق و باطل میں تمیز کرنےکی، سو جو کوئی پائے تم میں اس مہینہ کو تو وہ یہ مہینہ روزے رکھے۔ امام ابن مردویہ اور الاصبہانی نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے فرماتی ہیں نبی اکرمﷺ سے عرض کی گئی یا رسول اللہ رمضان کیا ہے؟ فرمایا اس میں اللہ تعالیٰ مومنین کے گناہ جلا دیتا ہے اور ان کے گناہ معاف فرمادیتا ہے، پوچھا گیا شوال کیا ہے؟ فرمایا اس میں لوگوں کے گناہ اٹھائے جاتے ہیں پس ہر گناہ معاف کر دیا جاتا ہے۔
ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت نقل فرماتے ہیں کہ حضوراکرمﷺجب رجب داخل ہوتا تو یہ دعا مانگتے اللهم بَارِک لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَانَ وَ بَلَغْنَا رَمَضَانَ ۔ اے اللہ ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت ڈال اور ہمیں رمضان کا مہینہ پہنچا۔ حکیم ترمندی ( نے نوادر الاصول میں) اور الاصبہانی نے الترغیب میں حضرت ابو مسعود الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت نقل فرماتے ہیں میں نے نبی اکرمﷺ سے ایک دن سنا اور رمضان کا چاند طلوع ہو چکا تھا ارشاد فرمایا اگر بندے جان لیں جو کچھ رمضان کی فضیلت ہے تو میرے امتی خواہش کریں کہ پورا سال رمضان ہو ۔ ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہﷺ ہمیں اس کی فضیلت بیان فرمائیے ، فرمایا جنت کو رمضان کے لیے ایک سال سے دوسرے سال تک مزین کیا جاتا ہے۔جب رمضان کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش کے نیچے سے ہوا چلتی ہے تو جنت کے پتے آواز دینے لگتے ہیں۔ آہو چشم حوریں اس کو دیکھتی ہیں تو کہتی ہیں یارب ہمارے لیے اس مہینہ میں اپنے بندوں میں سے خاوند بنا دے جن سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں ۔ پس کہا جاتا ہے جو رمضان کا ایک دن روزہ رکھتا ہے اسے جنت کی حور سے بیاہ دیا جاتا ہے ایک ایسے خیمہ میں جو موتیوں سے بنا ہوا ہے جیسا کہ رب تعالی نے صفت بیان فرمائی ہے حور مقصورات فی الخیام (الرحمن) ان حوروں میں سے ہر حور پرستر جوڑے ہوں گے، وہ جوڑا دوسرے سے مختلف نہ ہوگا اور سترقسم کی خوشبودی گئی ہوگی ۔ ہر ایک کا رنگ دوسری سے مختلف نہ ہوگا ،ان عورتوں میں سے ہر عورت کی خدمت کے لیے ستر ہزار خادمات اور ستر ہزار خادم ہوں گے اور ہر خادم کے ساتھ سونے کا ایک تھال ہوگا جس میں ایک رنگ کا کھانا ہوگا۔ اس کے ہر لقمہ کی لذت پہلے لقمہ سے مختلف پائے گی۔ ان میں ہر عورت کے لیے سرخ یاقوت کے ستر ہزار پلنگ ہوں گے، ہر پلنگ پر ستر بستر ہوں گے جن کے اندر کا کپڑا استبراق(ریشمی کپڑا)ہوگا اور ہر بستر پرستر صوفے ہوں گے۔ اس کی مثل اسی عورت کے خاوند کو دیا جائے گا۔ ہر پلنگ سرخ یا قوت کا ہوگا ، اس کو موتیوں سے مزین کیا گیا ہوگا، اس پر سونے کے دوکنگن ہوں گے۔ یہ اس دن کا بدلہ ہے جس دن اس نے روزہ رکھا، دوسری نیکیوں کی جزا اس کے علاوہ ہے ۔ ( تفسیر در منثور جلد اص ۴۸۹)
رب کریم نے ارشاد فرمایا الذی انزل فيه القرآن امام ابن احمد ، ابن جریر محمد بن نصر، ابن ابی حاتم نے طبرانی میں وائلہ بن الاستقع سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا حضرت ابراہیم علیہ السلام پر صحائف رمضان کی پہلی رات نازل ہوئے اور موسی علیہ السلام پر تورات نازل فرمائی جب کہ رمضان کی چھ راتیں گزر چکی تھیں اور داؤدعلیہ السلام پر زبور نازل فرمائی جب کہ رمضان کی بارہ راتیں گزر چکی تھیں عیسی علیہ السلام پر انجیل نازل فرمائی جب کہ رمضان کی اٹھارہ راتیں گزر چکی تھیں اورمحمدﷺ پر اللہ تعالی نے قرآن نازل فرمایا جب کہ رمضان کی چوبیس راتیں گزر چکی تھیں ۔ ( تفسیر طبری، زیر آیت بذا جلد ۲ ص ۱۷۴) بیہقی نے الاسم والصفات میں مقسم سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں عطیہ بن الاسود رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس سے کہا کہ میرے دل میں شھر رمضان الذی انزل فیہ کے متعلق اور انا انزلنه في ليلة القدر،انا انزلنه في ليلة مبركة کے ارشادات کے متعلق شک ہے کیونکہ قرآن تو شوال، ذی القعدہ ، ذی الحجہ محرم اور ربیع الاول تمام مہینوں میں اترا ہے ۔ ابن عباس نے فرمایا قرآن رمضان میں لیلہ القدر اور لیلہ مبارکہ میں یک بارگی اترا ہے پھر اس کے بعد مختلف مہینوں اورمختلف ایام میں تھوڑا تھوڑا کر کے اتارا گیا۔ ابن مردویہ اور بیہقی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں قرآن رمضان میں لیلہ القدر کو یک بارگی آسمان دنیا کی طرف اتارا گیا ، پھر جب رب تعالیٰ زمین میں کسی کام کا ارادہ فرماتا تو اس کے متعلق قرآن نازل فرماتا حتی کہ اس کو جمع کر دیا۔ ( تفسیر طبری، زیر آیت ہذا جلد ۲ ص ۱۷۵ مطبوعہ بیروت)
تفسیر در منثور میں امام عبد بن حمید اور ابن الضریس نے داؤد بن ابی ہند رحمہ اللہ سے روایت فرماتے ہیں میں نے عامر الشعبی سے کہا رمضان کا مہینہ جس میں قرآن نازل ہوا،کیا جو رمضان میں نازل ہوتا تھا اس کے علاوہ پورے سال میں بھی آپ پر قرآن نازل ہوتا تھا، انہوں نےفرمایا کیوں نہیں لیکن جبریل امین حضرت محمد ﷺ پر رمضان میں پیش کرتے تھے جو پورے سال میں نازل ہونا ہوتا تھا۔ پس رب تعالیٰ جو چاہتا اس کو حکم فرماتا اور جو چاہتا ثابت رکھتا اور منسوخ کرتا جو منسوخ کرنا چاہتااور جو چاہتا بھلادیتا۔ ( تفسیر در منثور جلد ۱ ص ۴۹۷)
رب کریم نے قرآن مقدس کے ابتدا میں واضح کر دیا کہ اس کتاب سے وہی صحیح راہ دیکھ سکتے ہیں اور صحیح راہ پر چل سکتے ہیں جو تقوی رکھتے ہیں ھدی للمتقين دوسری جانب روزہ رکھنے کا نتیجہ یوں بیان فرمایالَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ تاکہ تمہارے اندر تقوی پیدا ہو مذکورہ دونوں آیتوں کو ملا کر پڑھیے تو آپ اس راز کو پالیں گے کہ نزول قرآن کے اس مہینہ کو روزوں کے لیے کیوں خاص کیا گیا، اس ماہ کی بابرکت ساعتوں سے زیادہ موزوں وقت اس بات کے لیے اور کون ساہو سکتا تھا کہ روزہ کے ذریعہ تقوی کی وہ صفت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے جس سے قرآن کی راہ آسان ہو، تقوی قلب و روح،شعور و آگہی ،عزم وارادہ اور عمل و کردار کی اس قوت اوراستعداد کا نام ہے کہ جس کی وجہ سے ہم اس چیز سے رک جائیں جس کو ہم غلط جانتے اور مانتے ہوں اور اپنے لیے نقصان دہ سمجھتے ہوں،تقوی،بڑی اونچی اور بیش بہا صفت ہے اور ساری مطلوبہ صفات کی جامع بھی،جو تقوی کی صفت رکھتے ہیں ان کو اللہ عز وجل نے قرآن کریم میں دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیوں کی ضمانت دی ہے۔ متقین ہی وہ ہیں جن کو اس جنت کی بشارت دی گئی ہے جس کی وسعت میں زمین و آسمان سماجائیں،انہیں سے اس مغفرت کا وعدہ کیا گیا ہے جو اس جنت کی طرف لے جانے والی ہے، دنیا میں بھی آسمان زمین سے برکتوں کے دہانے کھول دینے کا وعدہ ان سے کیا گیا ہے جو ایمان اور تقوی کی صفت سے آراستہ ہوں ، قرآن کریم کی آیت مبارکہ ہےوَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَتَقَوَ الْفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَتِ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ “ (الاعراف ۹۶ 🙂 اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقوی اختیار کرتے تو ضرور ہم کھول دیتے ان پر برکتیں آسمان کی اور زمین کی۔ ہم روزہ رکھتے ہیں تو صبح سے شام تک اپنے جسم کے جائز مطالبات تک کو ترک کر دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خاطر اپنی جائز خواہشات بھی قربان کر دیتے ہیں رات آتی ہے تو کھڑے ہو کر اس کا کلام سنتے ہیں اور ایک مہینہ میں مکمل قرآن کریم سن لیتے ہیں روزہ یہ بات بھی راسخ کردیتا ہے کہ اصل مقصد اطاعت الہی ہے ۔ نیکی اور ثواب صرف اللہ تعالی کی اطاعت اور فرمانبرداری میں ہے،روزہ سے ہمارا یہ یقین بھی راسخ ہوتا ہے کہ جن حقیقتوں کی خبر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نبی کریم ﷺ نے دی ہے، وہ مادی وحسی نہیں ہیں، وہ بھوک پیاس اور جنسی لذت جیسی مادی حقیقتوں سے کہیں زیادہ بالا،بیش بہا اور لذیذ ہیں۔ ہم صرف روٹی سے نہیں جیتے،اعلی اخلاقی مقاصد ، ہماری زندگی کے لیے ناگزیر ہیں،اس طرح ہمارے اندر یہ قوت پیدا ہوتی ہے کہ ہم بلند تر روحانی اور اخلاقی مقاصد کے لیے ان دنیوی خواہشات کو قربان کردیں،در حقیقت اس احساس و یقین اور اسی قوت کا نام تقوی ہے جس کو پیدا کرنے کے لیے روزہ قیام لیل اور تلاوت قرآن سے زیادہ مؤثر کوئی اور نسخہ نہیں اور اس نسخہ کے استعمال کے لیے رمضان المبارک ہی سب سے زیادہ موزوں مہینہ تھا، روزہ اور قیام لیل میں تلاوت قرآن دونوں کو رمضان کے مہینہ میں جمع کر کے اللہ تعالیٰ نے دراصل اس تقوی کے حصول کا راستہ ہمارے لیے کھول دیا ہے۔ رمضان المبارک میں قیام لیل اور تلاوت قرآن، تقوی کے حصول کے لیے انتہائی کارگر نسخہ ہے۔ رمضان المبارک میں تراویح کی نماز قیام لیل ہی کے لیے ہے ۔ آپ شروع رات کے آخری تہائی حصہ میں یا وقت سحر میں کھڑے ہو کر قرآن سنتے ہیں یہ قیام لیل ہے ۔ قیام لیل کا دوسرا وقت وہ ہے جو نصف رات کا وقت ہے یہی وہ وقت ہے جس میں قرآن کریم نے استغفار کی تاکید کی ہے، رمضان کے مہینہ میں تھوڑ اسا اہتمام کر کے رات کے اس آخری حصہ میں آپ قیام لیل کی برکت حاصل کر سکتے ہیں اور آپ کا شمار مستغفرين بالاعمال میں ہو سکتا ہے۔ یہ رات کا وہ حصہ ہے جس کے بارے میں بنی کریم ﷺ نے بتایا ہے کہ اللہ تعالی دنیا والوں کے بہت قریب آتا ہے اور پکارتا ہے کون ہے وہ جو مجھ سے مانگے کہ میں اسے جو مانگے وہ دوں، کون ہے جو مجھ سے اپنے گناہوں کی مغفرت چاہے کہ میں اس کو معاف کر دوں ( بخاری ومسلم ) ایک روایت میں تو دل کو تڑپادینے والے یہ الفاظ ہیں کہ رات کی اس گھڑی میں اللہ تعالی اپنا ہاتھ پھیلا دیتا ہے اور کہتا ہے کون ہے جوایسی ذات کو قرض دے جوکہ فقیرہے اورنہ ظالم اورصبح تک یہی کہتارہتاہے۔(مسلم)
رمضان میں عام اوقات کے علاوہ قبولیت کے خاص اوقات بھی ہیں۔ ان میں افطار کا وقت بھی ہے۔ اس وقت اللہ تعالی کی رحمت متوجہ ہوتی ہے۔ اسی ضمن میں کوشش کریں کہ پہلے عشرہ میں رحمت کی طلب، کثرت سے کریں، دوسرے عشرے میں مغفرت کی اور تیسرے عشرے میں نار جہنم سے رہائی کی ۔نبی اکرم ﷺنے ان عشروں کی یہ برکات بیان فرمائی ہیں ( بیہقی ،سلمان فارسی ) رمضان میں شب قدر وہ مبارک رات ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا، یہ رات اپنی قدر و قیمت کے لحاظ سے ہزاروں مہینوں سے بہتر ہے جو اس رات قیام کرے اس کو سارے گناہوں کی مغفرت کی بشارت دی گئی ہے ۔ ہر رات کی طرح اس رات میں بھی وہ گھڑی ہے جس میں دعائیں قبول کی جاتی ہیں ۔ ( مسلم ) اگرآپ اس رات کے خیر سے محروم ہیں تو اس سے بڑی بد قسمتی اور کوئی نہیں ہوسکتی (ابن ماجہ ) عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ ستائیسویں رات ہے، اگر اس رات قیام اور عبادت کا اہتمام کر لیا جائے تو بہت بڑی بات ہوگی،احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آخری عشرے کی کوئی طاق رات ہے۔ یہ ضرور ہے کہ بعض صحابہ اور صلحا کی روایات سے ستائیسویں رات کی تائید ہوتی ہے۔ اس رات کے قیام میں وہ تمام خیر و برکت تو حاصل ہوگا ہی جو کسی بھی رات کے قیام سے حاصل ہوتا ہے لیکن ایک طرف تو اس سے عام خیر و برکت میں کئی گنا اضافہ ہوتا ہے، دوسری طرف مزید خیر و برکت کے دروازے بھی کھول دئے جاتے ہیں۔
پورارمضان مسلمانوں پررب تعالی کی اس خصوصی رحمت کامظہرہے کہ اس نے ہمارے لیے کم وقت اور مختصرعمل میں وہ اجروثواب رکھاہے جودوسری امتوں کوطویل مدت اور بہت زیادہ عمل سے حاصل ہوتا ہے ۔ ارشاد نبویﷺ کے مطابق اس کی مثال ایسی ہے کہ امت مسلمہ کو عصر سے مغرب تک محنت کر کے اس سے کہیں زیادہ مزدوری ملتی ہے، جتنی یہودیوں کو فجر سے ظہر تک اور عیسائیوں کو ظہر سے مغرب تک کام کر کے ملی ( بخاری ) شب قدر ہمارے رب کی اس خصوصی رحمت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ قبولیت دعا کی خصوصی گھڑی تو ہر شب آتی ہے لیکن شب قدر میں اس گھڑی کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا ہے ۔ اس کی شان اور تاثیر ہی جدا ہوتی ہے، وہ گھڑی معلوم نہیں، کون سی ہو اس لیے نبی کریم ﷺنے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کو ایک مختصر مگر بہت جامع دعا سکھائی تھی ، جو اس رات میں آپ نے بھی کثرت سے مانگی “اللهم انك عفو تحب العفو فاعف عنی ( احمدترندی ) میرے اللہ تو بہت معاف کرنے والا ہے ، معاف کرنے کو محبوب رکھتا ہے، پس مجھ کو معاف کر دے۔ اس نورانی رات کی برکتوں کو پانے اور نزول قرآن کا شکر ادا کرنے کے لیے مکمل طور سے یکسو ہو جائے راتوں کو جاگے، نوافل کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرے کثرت سے قرآن کی تلاوت کرے اور تسبیح وذکر میں مشغول رہے پھر خوب دعائیں کرے، روئے گڑ گڑائے اور اس بات کا عہد کرے کہ جس مقصد کے لیے قرآن کا نزول ہوا تھا اس کے حصول میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گالیلہ القدر میں اللہ کے نزدیک عفو درگذر عام ہوتا ہے اس لیے ہمیں اپنے گناہوں پر بھی نادم وشرمندہ ہونا چاہیے اور تو بہ کرنا چاہیے اور نزول قرآن کی اس نورانی رات میں یہ عزم کریں کہ ہم آئندہ زندگی قرآن کی رہنمائی اور رسول اکرمﷺ کی پیروی میں گزاریں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس ماہ کاہر دن روز سعید ہے اور اس ماہ کی ہر شب شب مبارک ہے ۔ اس ماہ کی ہر گھڑی میں فیض و برکت کا اتنا خزانہ پوشیدہ ہے کہ نفل اعمال صالح، فرض اعمال کے درجے کو پہنچ جاتے ہیں اور فرائض ستر گنا زیادہ بلند ہو جاتے ہیں ( بیہقی ) رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور رحمتوں کی بارش ہوتی ہے۔ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیطان کو زنجیروں میں جگڑ دیا جاتا ہے( بخاری، مسلم)
لمحہ فکریہ،یہ ہے کہ آج مسلمان پوری دنیا میں پریشاں حال ہے، اس کی واحد وجہ قرآن اور اس کی تعلیمات سے بیزاری کے سوا کچھ نہیں،موقع غنیمت ہے،قرآنی ماہ یعنی رمضان المبارک کی آمدآمدہے، ہم پر لازمی ہے کہ ہم عہد کریں کہ باقی ایام میں قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھیں گے، اس کی تعلیمات پر عمل کریں گے ، اگر ہم نے ایسا کیا تو ہماری ذلت و خواری،عزت و تکریم میں بدل جائے گی اور اگر ایسا نہ کر سکے تو پھر ہمیں مزید ذلیل ورسوا ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا ہے؟۔
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشناکردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
9450570152