Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 4th March
تمل ناڈو میں بہار کے مزدوروں کے ساتھ مارپیٹ اور تشدد کے واقعات پر بہار کی سیاست مسلسل گرم ہے۔ حالانکہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی ایما پر ریاست کے اعلیٰ افسران پر مشتمل ایک چار رکنی ٹیم تمل ناڈو پہنچ چکی ہے۔ ٹیم میں آئی اے ایس افسر بالا مروگن ڈی، سی آئی ڈی آئی جی پی پی کنن، لیبر ڈیپارٹمنٹ کے اسپیشل سکریٹری آلوک کمار اور ایک اور سینئر پولیس افسر شامل ہیں۔ٹیم آج سے وہاں زمینی حقیقت کا پتہ لگائے گی۔ٹیم میں شامل بالا مروگن ڈی اور پی کنن کا تعلق تمل ناڈو سے ہے۔ظاہر ہے وہ مقامی سطح پر چیزوں کو بہتر سمجھتے ہیں چنانچہ معاملے کو سمجھنا ان کے لئے بہت مشکل نہیں ہوگا۔
ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق ٹیم آج سے معاملے کی تحقیقات شروع کر دیگی۔البتہ ابھی بھی ایک طرف جہاں تمل ناڈو کے ڈی جی پی اور پھر حکومت کے وزرا یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ بہاری مزدوروں کے ساتھ مارپیٹ اور تشددسے متعلق تمام باتیں گمراہ کن ہیں اور غلط خبریں پھیلائی گئی ہیں۔مگر دوسری جانب بہار کے ایوان میں اپوزیشن کا ہنگامہ اور واک آؤٹ کے ساتھ ساتھ بعض اخباروں میں اس سلسلے کی چھپی خبر کے مدنظروزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اعلیٰ حکام کی ایک ٹیم تمل ناڈ و بھیج کر زمینی سچائی کا پتہ لگانے کا اعلان کر چکے تھے۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے ہفتے کے روز ہی میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہئے کہا تھا کہ بہار سے حکام کی ایک ٹیم حقیقت جاننے کے لیے تمل اڈو بھیجی جا رہی ہے۔
تمل ناڈو میں بہار کے مزدوروںکے ساتھ ظلم و زیادتی کی خبر جس دن اخباروں میں شائع ہوئی تھی، اسی دن یہ مسئلہ پہلی بار بہار قانون ساز اسمبلی میں اٹھا ۔اس کے بعد بی جے پی نے حکومت کو گھیر لیا۔ساتھ ہی ریاست میں سیاست بھی گرم ہو گئی۔حالانکہ اسی دن تمل ناڈو کے ڈی جی پی نے اپنی سطح سے یہ واضح کر دیا تھا کہ وائرل ویڈیو ایک پرانا اور مختلف واقعہ کا ہے۔ جب کہ تشدد اور حملہ کے تمام دعوؤں کو انہوں نے یکسر مسترد کر دیا، لیکن اس کے بعد بھی بہار حکومت نے اپوزیشن کے مطالبے کو مان لیا اور بہار سے افسران کی ایک ٹیم بھیجنے کی ہدایت جاری کی گئی۔تمل ناڈو کے لیبر ویلفیئر منسٹر نے بھی جمعہ کو بیان دیا کہ تمام دعوے جھوٹے اور گمراہ کن ہیں۔مار پیٹ کی خبریں شر انگیزی کی نیت سے پھیلائی گئی ہیںجب کہ تمل ناڈو میں بہار کے تارکین وطن مزدوروں کے ساتھ کوئی بدتمیزی نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے تمل ناڈو کو امن کی ریاست قرار دیا۔ دوسری جانب تمل ناڈو پولیس نے اس معاملے پر ایک ٹویٹ جاری کرتے ہوئے، افواہ پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا انتباہ دیا تھا۔
مگر دوسری جانب آر جے ڈی کے قومی نائب صدر شیوانند تیواری نے تمل ناڈو میں پیش آنے والے واقعہ کو افسوس ناک قرار دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ تمل ناڈو میں بہار کے مزدوروں پر پرتشدد حملہ انتہائی سنگین واقعہ ہے۔ یہ واقعہ اس بات کا اشارہ دے رہا ہے کہ مستقبل میں ایسے واقعات دوسرے صوبوں میں بھی ہو سکتے ہیں۔ ملک میں بے روزگاری کا مسئلہ بیحد سنگین ہے۔ ان ریاستوں میں بھی ،جنہیں ہم ترقی یافتہ سمجھتے ہیں اور جہاں بے روزگاری کی شرح کم تھی، وہاں بے روزگاری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اب تک وہاں بہار کے مزدوروں کا استقبال کیا جاتا تھا۔ استقبال صرف اس لیے نہیں تھا کہ وہاں مقامی مزدور دستیاب نہیں تھے، بلکہ اس لیے بھی کہ بہار کے مزدور کم اجرت پر بھی محنت کرنے کو تیار تھے۔ تمل ناڈو کے حکام بھلے ہی وہاں بہاری مزدوروںپر حملوں سے انکار کر دیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہار کے مزدوروں پر ایک جگہ نہیں، بلکہ کئی مقامات پر حملے ہو چکے ہیں۔ اس لیے اسے منصوبہ بند بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ حملہ آور شکایت کرتے ہیں کہ ان لوگوں کی وجہ سے ہمیں کام نہیں ملتا۔ یہ لوگ کم اجرت پر بھی کام کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ وہاں بہاری مزدوروں کے خلاف غصہ بہت شدید ہے۔ اس کی تصدیق کلہاڑی سے حملے اور دو افراد کی ہلاکت سے ہی ہوتی ہے۔
مگر بہار کے ڈپٹی سی ایم تیجسوی یادو بی جے پی اور اپنی پارٹی کے قومی صدر شیوا نند تیواری کے موقف سے متفق نہیں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ تمل ناڈو میں بہاریوں پر حملے کی بات بالکل غلط ہے۔ بی جے پی نے حملے کی افواہیں پھیلائی ہیں۔ بی جے پی ذہن رکھنے والا میڈیا بھی غلط خبریں دے رہا ہے۔بی جے پی بہار کے لوگوں کو بدنام کرنے کی مسلسل سازش کر رہی ہے۔ایسے میں اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب بہار کے اعلیٰ افسران کی ایک ٹیم تمل ناڈو جا کر معاملے کی تفتیش شروع کر دی ہے تو پھر اِدھر توتو میں میں کرنے سے کیا فائدہ ہے ؟ اگر بی جے پی اپوزیشن کا حق ادا کر رہی ہے تو آر جے ڈی کے صدر کو تو کم سے کم اعلیٰ افسران کی رپورٹ کا انتظار کرنا چاہئے۔