Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 5th March
بہار میں عظیم اتحاد کی حکومت بننے کے بعدہی یہ لگنے لگا تھا کہ بی جے پی کے ساتھ ساتھ چند جے ڈی یو لیڈروں کو بھی وزیر اعلیٰ نتیش کمار کا یہ فیصلہ پسند نہیں ہے۔شاید یہی وجہ تھی کہ پارٹی کے قد آور لیڈر آر سی پی سنگھ کے بعد اپیندر کشواہا نے بھی چند دنوں قبل پارٹی سے کنارہ کشی احتیار کر لی تھی اور اب دو بار ایم پی رہ چکی مینا سنگھ نے بھی اسی معاملے پر جے ڈی یو کو اپنا استعفیٰ دے دیا ہے۔ اپیندر کشواہا اور سنگھ دونوں لیڈروں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے اپنی دلچسپی کا اظپار کیا ہے۔لیکن ابھی تک یہ بات سامنے نہیں آئی ہے کہ ان کے لئے بی جے پی نے کوئی جال بچھایا تھا۔بعض جے ڈی یو لیڈروں کا کہنا ہے کہ جس طرح آر سی پی سنگھ کے چلے جانے سے پارٹی کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا اسی طرح اپندر کشواہا مینا سنگھ کےپارٹی سے علیٰحدگی اختیار کر لینے سے پارٹی کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ حالانکہ ریاست بہارکے سیاسی حلقوںمیں اس پر چرچا ضرور ہو رہا ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اپنی پارٹی پر کنٹرول کے معاملے میں نتیش پہلے سے تھوڑا کمزور ضرور ہوئے ہیں۔فی الحال، جے ڈی یو سات جماعتوں کے عظیم اتحاد کا ایک اہم حصہ ہے۔چنانچہ عظیم اتحاد میں شامل تما م ساتوں جماعتوں کے رہنما اپنے اتحاد کو کسی بھی حال میں کمزور نہیں ہونے دینا چاہتے ہیں۔تقریباََ سب کی نظر جے ڈی یو کے رہنماؤں کی جانب ہے۔خاص طور پر ان پر جوخاموش ہیں اور مناسب وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔
اِدھر آر جے ڈی، جو بہار قانون ساز اسمبلی کی سب سے بڑی پارٹی ہے اور عظیم اتحاد کا حصہ ہے، بھی جے ڈی یو پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ منیر اسمبلی حلقہ سے آر جے ڈی ایم ایل اے اور پارٹی لیڈر تیجسوی یادو کے انتہائی قریبی بھائی ویریندر نے دعویٰ کیا ہے کہ ہمارے ووٹرز برقرار ہیں اور آئندہ انتخابات میںعظیم اتحاد کے ہی امیدواروں کو ووٹ دیں گے۔ان کا کہنا ہے کہ ابھی جن لوگوں نے بھی جے ڈی یو سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے،انہوں نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے ایسا کیا ہے۔
اپیندر کشواہا اورمینا سنگھ کے حوالے سے آر جے ڈی کے قومی نائب صدر شیوانند تیواری نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اوپیندر کشواہا زمینی سطح کےجانے مانے لیڈر ہیں۔ان کی عدم موجودگی سے پارٹی متاثر ہو سکتی ہے، لیکن مینا سنگھ کے جانے سے جے ڈی یو کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ شیوانند تیواری نے2019 کے لوک سبھا کی یاد دلاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اپیندر کشواہااس وقت عظیم اتحاد میں تھے اور اپنی پارٹی راشٹریہ لوک سمتا پارٹی (آر ایل ایس پی) کے لیے پانچ لوک سبھا سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے اس الیکشن میں خود دو سیٹوں سے انتخابات لڑے لیکن دونوں میں ہار گئے۔ کشواہا برادری کےایک امیدوار مہابلی سنگھ نے انہیںکاراکاٹ لوک سبھا سیٹ پر بھی شکست دی۔ اس الیکشن میں آر ایل ایس پی کے دیگر تین امیدواروں کو بھی شکست کا منھ دیکھنا پڑا تھا۔اس کے باوجود یہ مانا جا سکتا ہے کہ اپیندر کشواہا کوئری برادری کے لیڈر ہیں اور وہ لو کش سماج کے کچھ ووٹوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔
یہ طے ہے کہ بہار میں 2024 کےلوک سبھا انتخابات صرف دو پارٹیوں بی جے پی اور عظیم اتحاد کے درمیان لڑے جائیں گے۔ لیکن اتحاد میں شامل کچھ لیڈر ابھی بھی ایسے ہیں ، جن کا جھکاؤ بی جے پی کی طرف ہے۔ دوسری طرف آر جے ڈی کے لیے بلاشبہ ایم وائی (مسلم۔ یادو) کا انتخابی تانہ بانہ ایک بڑا فیکٹر ہے۔ حالانکہ اس کے قائدین دوسری ذاتوں کے ووٹروں پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو نے آر جے ڈی کو اے ٹو زیڈ برادری کی پارٹی بنانے کی وکالت کی۔ اے ٹو زیڈ کے ذریعے تیجسوی یادو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ کسی کو بھی آر جے ڈی سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ تیجسوی یادو اور آر جے ڈی کے دیگر لیڈروں کے لیے مسلم کمیونٹی کے بنیادی ووٹ بینک کو برقرار رکھنا لوک سبھا انتخابات 2024 میں سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔ 2020 کے اسمبلی انتخابات میں، انہوں نے دیکھا کہ اے آئی ایم آئی ایم نے کس طرح سیمانچل علاقے میں آر جے ڈی کو گہرا نقصان پہنچایا ہے۔
حالانکہ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ جس طرح سے بہار میں جرائم بڑھ رہے ہیں، نتیش کمار امن و امان پر قابو کھو چکے ہیں ۔بہار میں عظیم اتحاد حکومت بننے کے بعد جرائم کا گراف تیزی سے بڑھ گیا ہے۔بہار میں قتل، ڈکیتی، عصمت دری، اغواجیسے جرائم عام ہو گئے ہیں۔ چنانچہ بی جے پی کو امید ہے کہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے دن جیسے جیسے قریب ہونگے ، ویسے ویسے عظیم اتحاد کے لیڈر بی جے پی میں شامل ہوتے جائیں گے اور ایک دن ایسا آئے گا کہ عظیم اتحاد کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک جائے گی۔لیکن عظیم اتحاد کے لوگ اسے اندھے کا خواب قرار دے رہے ہیں اور دعویٰ کر رہے ہیں کہ عظیم اتحاد پوری طرح مضبوط ہے۔
**************