!ملک میں امن و امان قائم رہے

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 16th March

ایودھیا میںرام مندر کی تعمیر کا کام زور و شور سے جاری ہے۔ دوسری جانب رمضان المبارک کے بعددھنی پور مسجد کی تعمیر شروع ہونے کا امکان ہے۔ ایودھیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی(اے ڈی اے) نے حال ہی میں منعقدہ بورڈ میٹنگ میں دھنی پور گاؤں میں مسجد کمپلیکس کی لے آؤٹ کو منظوری دی ہے۔ ڈی ایم اور اے ڈی اے کےچیئر مین نتیش کمار کا کہنا ہے کہ مسجد کی منظور شدہ لے آؤٹ کچھ رسمی کارروائیوں کو مکمل کرنے کے بعد اگلے چند دنوں میں سنی سنٹرل وقف بورڈ (ایس سی ڈبلیو بی) کو سونپ دی جائے گی۔
اس درمیان ایس سی ڈبلیو بی نے کہا ہے کہ وہ اس حوالے سے رمضان کے بعد میٹنگ بلائے گا۔ انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن (آئی آئی سی ایف)کے نام سے ایک ٹرسٹ سنی سنٹرل وقف بورڈ (ایس سی ڈبلیو بی) نے دھنی پور میں تعمیرات کی نگرانی کے لیے تشکیل دیا ہے۔ اس ک سکرٹری اطہر حسین نے کہا کہ ہم رمضان کے بعد ایک میٹنگ بلائیں گے۔ میٹنگ میں ہی ہم تعمیر شروع کرنے کے منصوبے کو حتمی شکل دیں گے۔ اسی میٹنگ میں مسجد کمپلیکس کی تعمیر شروع کرنے کی تاریخ بھی طے کی جائے گی۔ رمضان کا مقدس مہینہ 22 مارچ سے شروع ہو کر 21 اپریل کو ختم ہونے کا امکان ہے۔
قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے 9 نومبر، 2019 کو ایودھیا میں اس جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی اجازت دی جہاں، 16ویں صدی کی بابری مسجد کھڑی تھی، جسے کار سیوکوں نے شہید کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اسی فیصلے میں حکومت سے ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ دوسری مسجد کی تعمیر کے لیے ایک اہم اور موزوں پانچ ایکڑ کا پلاٹ مسلمانوں کو الاٹ کرنے کو بھی کہا تھا۔سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے کہا تھا کہ وہ نئی تعمیر شدہ مسجد کو 16ویں صدی کے متنازع ڈھانچے سے جوڑنا نہیں چاہتا، جسے 6 دسمبر 1992 کوشہیدکر دیا گیا تھا۔ اس لیے مسجد کا نام کسی مغل بادشاہ کے نام پر نہیں رکھا جائے گا۔ اطہر حسین نے کہا کہ مسجد اور کمپلیکس کا نام مجاہد آزادی اور انقلابی عالم احمد اللہ شاہ فیض آبادی کے نام پر رکھا جائے گا۔ اس میں ایک مسجد، ہسپتال، کمیونٹی کچن اور میوزیم شامل ہوگا۔ہسپتال کو زیادہ سے زیادہ رقبہ الاٹ کیا جائے گا۔ ہم ایک ملٹی اسپیشلٹی ہسپتال تیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو جدید ترین سہولیات سے آراستہ ہو گا۔ پورا ہسپتال دو مرحلوں میں قائم کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں 100 بیڈکا انتظام کیا جائے گا جبکہ دوسرے مرحلے میں مزید 100 بیڈ کا اضافہ کیا جائے گا۔ ہسپتال کینسر کی دیکھ بھال، ٹرانسپلانٹ، ریڑھ کی ہڈی، کارڈیک، روبوٹکس، آرتھوپیڈکس، ایمرجنسی اور بہت کچھ میں بہترین علاج پیش کرے گا۔ ٹرسٹ کی جانب سے مسجد کے ڈیزائن کے لیے پروفیسر ایس ایم اختر کو مقرر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، ٹرسٹ نے معروف مورخ، بین الاقوامی تعلقات کے ماہر اور ہندوستانی کھانوں کے مورخ پروفیسر پشپیش پنت کو اپنے آرکائیو میوزیم کا کنسلٹنٹ کیوریٹر بھی مقرر کیا ہے جو مسجد کمپلیکس کا حصہ ہوگا۔
بتایا جاتا ہے کہ مسجد گول شکل کی ہوگی ،جس میں ایک وقت میں 2000 نمازیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہوگی۔ یہ بابری مسجد سے چار گنا بڑی ہوگی۔ ہسپتال کا کمپلیکس مسجد سے چھ گنا بڑا ہوگا۔ مسجد 3500 مربع میٹر اراضی پر تعمیر کی جائے گی جبکہ ہسپتال اور دیگر سہولیات 24150 مربع میٹر کے رقبے پر محیط ہوں گی۔ مسجد میں بجلی کی تمام ضروریات سولر پینلز کی مدد سے پوری کی جائیں گی اور بجلی کا کوئی کنکشن نہیں ہوگا۔ منصوبے کے لیے چندہ جمع کرنے کے لیے ابھی تک کوئی تفصیلی منصوبہ نہیں ہے۔ تعمیر کے لیے فنڈز جمع کرنے کے لیے دو الگ الگ بینک اکاؤنٹس بنائے گئے ہیں ۔ ایک مسجد کے لیے اور دوسرا دوسرے ڈھانچے کے لیے۔
ہم میں سے بہت سے لوگوں کو معلوم ہے کہ بابری مسجد کی تعمیر سے صدیوں پہلے مسلمان اجودھیا میں آباد تھے۔یہاںکے ہندو مسلم پوری یک جہتی اور یگانگت کے ساتھ رہتے سہتے تھے۔ 1855/1272ھ سے پہلے کسی مذہبی معاملہ میں یہاں کے باشندوں کے درمیان کوئی تنازعہ رونما ہوا یا باہمی ٹکراؤ کی نوبت نہیں آئی ۔لیکن جب اس ملک پر انگریزوں کا منحوس سایہ پڑا اور ان کا یہاں عمل دخل شروع ہوا تو انھوں نے اپنی بدنام زمانہ پالیسی ’’لڑاؤ اورحکومت کرو‘‘کے تحت یہاں کے لوگوں میں باہمی منافرت اور تصادم پیدا کرنے کی غرض سے مسجد، مندر، جنم استھان وغیرہ کا خود ساختہ قضیہ چھیڑ دیا، جس کے نتیجہ میں 1855ء/ 1272ھ میں اجودھیا کے اندر زبردست خونریزی ہوئی۔اسی وقت سے اختلاف کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی گئی،اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے۔
اب بھارت کے مقدر میں جو ہونا تھا وہ ہو گیا ہے۔ ملک کےعوام مذہب کے نام ٹکراؤ نہیں چاہتے ہیں۔ مسلمانوں نے تو بابری مسجد کو ہی اللہ کے حوالے کر دیا ہے۔مسلمانوں کے رویہ سے لگتا ہے کہ اب انھیں اس پانچ ایکڑ زمین کے ٹکڑے میں بھی کوئی دلچسپی نہیںہے، جسے سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے بدلےمیں کہیں دوسری مناسب جگہ الاٹ کرنے کی ہدایت دی تھی۔ لیکن ملک کے عوام بس اتنا ہی چاہتے ہیں کہ مذہب کے نام پر اب آپس میںکوئی ٹکراؤ نہیں ہو۔عام ہندو یا دیگر مذاہب کے لوگ بھی یہی چاہتے ہیں کہ ملک میں امن و امان قائم رہے ۔
*********************