Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 13 APRIL
محمد اختر عادل گیلانی
قرآن مجید میں روزہ فرض کیے جانے کا مقصد یہ بتایا گیا کہ ہمارے اندر تقویٰ کی صفت پیدا ہو جائے-تقویٰ کسی ظاہری اور بناوٹی شکل و صورت کا نام نہیں ہے بلکہ تقویٰ دل کی ایمانی کیفیت کا نام ہے- اس کی ظاہری شکل یہ ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے شریعت و سنت کے مطابق زندگی گزاری جائے، اللہ کے ذریعے حلال چیزوں کو حلال اور حرام کو حرام جانا جائے- رمضان میں اللہ کے حکم سے جب ہم دن کے اوقات میں حلال چیزوں کو ہاتھ نہیں لگاتے اور حرام چیزوں کی طرف قدم نہیں بڑھاتے اور نہ اس کی طرف نظر اٹھاتے، تو ہمارے اندر صبر کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے-صبر کے لغوی معنی روکنے اور باندھنے کہ ہیں، اور اصطلاح میں صبر کے معنی ہیں ارادے کی مضبوطی، عزم و حوصلے کی پختگی اور خواہشاتِ نفس پر قابو پانا- اس طرح روزہ بھوک پیاس اور دوسری خواہشاتِ نفس پر قابو پانے اور تزکیۂ نفس کا بہترین ذریعہ ہے- تزکیۂ نفس کس چیز کا نام ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں خیر و شر دونوں طرح کی صلاحیت ودیعت کر رکھی ہے اور خیر و شر کے دونوں راستے بتا اور دکھا دیئے ہیں، تو جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کرتے ہوئے خیر کو ابھارا اور پروان چڑھایا وہ کامیاب ہو گیا اور اپنی مراد کو پالیا، اور جس نے خیر کو دبا کر شر کا راستہ اختیار کیا وہ ناکام و نامراد ہو گیا- تقویٰ، صبر اور تزکیۂ نفس کے آئینے میں اپنا اپنا جائزہ لینا اور محاسبہ کرنا چاہیے کہ رمضان کے دوران ہم میں یہ صفات پیدا ہو ئی کہ نہیں؟
اللہ کا فضل اور شکر و احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس سال بھی یہ مواقع عطا فرمائے- رمضان المبارک کا مہینہ آیا بھی اور اب اسے الوداع کہنے کی تیاری بھی شروع ہو گئی ہے- رحمت اور مغفرت کا عشرہ تو گزر چکا، لیکن جہنم سے نجات، شبِ قدر و اعتکاف کے مبارک عشرہ سے ہم لوگ گزر رہے ہیں، لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ زیادہ تر مساجد میں نمازِ تراویح مکمل ہو چکی ہے، برساتی مینڈھک اور محرم کے سپاہیوں کی طرح رمضان کے وقتی(پارٹ ٹائم) نمازیوں کا جوش و خروش بھی سرد پڑتا جارہا ہے اور مساجد معمول کی طرف گامزن ہیں- حالانکہ حدیث کی رٰو سے شیاطین ابھی آزاد نہیں ہوئے ہیں، لیکن محلے اور بازاروں میں شیطانی کام جاری و ساری ہے- عورتوں کی نظرِ عنایت سے چہل پہل اور رونق میں چار چاند لگ گیا ہے- رمضان میں ہم نے جو بھی تھوڑا بہت اجر و ثواب کمایا وہ رمضان المبارک کے رخصت ہونے سے پہلے ہی ضائع ہونا شروع ہو گیا ہے- جو بچا کھچا رہ جائے گا وہ ہم میں سے زیادہ تر کا چاند رات اور عید کے دن شیطان کے نذر ہو جائے گا-
مولانا مودودی علیہ رحمۃ نے خطبات صوم میں ایک جگہ لکھا ہے کہ بیشتر مسلمان روزے داروں کا حال اس مریض کی طرح ہے جو بیماری کی حالت میں مقوی و مرغن غذائیں کھاتا ہے، لیکن پر ہیز نہیں کرتا ہے اور کھانے کے تھوڑی دیر بعد ہی منہ میں انگلی ڈال کر قے (متلی/الٹی) کردیتا ہے- ایسی حالت میں مریض کو مقوی غذا کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکے گی اور نہ مریض صحتیاب سکے گا، ٹھیک اسی طرح ایک ماہ کا روزہ رکھنے کے بعد ان لوگوں کا ہو جاتا ہے، جس کی مثال اوپر بیان کی گئی-
ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم اپنا اپنا جائزہ لیں اور محاسبہ کریں کہ اب تک ہم نے کیا پایا اور کیا کھویا-آیا ہم میں تقویٰ کی صفت، صبر و تحمل کی صلاحیت پیدا ہوئی کہ نہیں اور اپنے نفس کو اچھے اور نیک کاموں کے لیے ابھارا اور تیار کیا کہ نہیں؟ اگر کیا تو خوشی و شکر کا موقع ہے اور نہیں تو خطرے کی گھنٹی ہے، پھر بھی اللہ کی رحمت اور مغفرت سے نا امید نہیں ہوناچاہیے، جو گزر گیا اس سے مایوس نہ ہوں اور اس کا رونا چھوڑ دیں اور جو چند ایام بچے ہوئے ہیں، اس کو غنیمت جانتے ہوئے اس میں توبہ و استغفار اور نیک اعمال کے ذریعے اپنے رب کو منانے کی کوشش اور دعائیں کریں-
رابطہ:9852039746