سعودیہ نے راستہ بدلا تو میں بھی اپنا موقف بدلنے کا حق محفوظ رکھتا ہوں: لنڈسے گراہم

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 18 APRIL

واشنگٹن،18اپریل : امریکی ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے کہا ہے کہ انہوں نے سعودی عرب کے بارے میں اپنی رائے پر راستہ بدل لیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ دوسرے سینیٹرز کو مملکت میں آنے کی ترغیب دیں گے اور ویڑن 2030 کے تحت ہونے والی تبدیلیوں اور پیش رفت کو خود دیکھیں گے۔ گراہم نے منگل کو ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور دیگر سینئر سعودی رہنماؤں سے ملاقات کی۔ان سے جب 2018 میں سعودی عرب کے خلاف ان کے گزشتہ تبصروں اور اس کے بعد کبھی مملکت کا دورہ نہ کرنے یا مملکت کے ساتھ کاروبار نہ کرنے کے اعلان کے متعلق سوال کیا گیا تو لنڈسے گراہم نے ’’ العربیہ‘‘ کو بتایا کہ دنیا بدل چکی ہے۔ سعودی عرب نے نیا راستہ اختیار کر لیا۔ میں ایمانداری سے کہوں گا کہ 2018 کی بات اپنی جگہ درست تھی لیکن میں یہاں ایسی چیزیں ہوتے دیکھ رہا ہوں جو میرے خیال میں ممکن نہیں تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ چیزیں سننے میں آرہی ہیں تو میں اس سب کو خود دیکھنے کے لیے حاضر ہوگیا۔لنڈسے گراہم نے مزید کہا میں امریکہ واپس جا رہا ہوں اور اپنے ساتھیوں سے کہوں گا کہ آپ کو سعودی عرب جانے کی ضرورت ہے کہ دیکھیں وہاں کیا ہو رہا ہے۔ اگر ’’ویڑن 2030‘‘ کے اہداف حاصل کرلیے جاتے ہیں تو سعودی عرب ایک سیاحتی مقام بن جائے گا۔ یہ ویڑن سعودی عرب کو ایک بہتر کاروباری شراکت دار بنا دے گا۔ اگر ہم اس لمحے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سعودی عرب کے ساتھ عسکری اور اقتصادی طور پر ایک سٹریٹجک اتحاد بنا سکتے ہیں تو میرے خیال میں ہمیں واپس ہوکر اس کا حصہ بن جانا چاہیے۔گراہم نے مزید نشاندہی کی کہ سعودی عرب نے میری ریاست اور میرے ملک میں بنائے گئے 37 بلین ڈالر کے طیارے خریدے ہیں اور اس جانب مزید پیش رفت بھی ہو رہی ہے۔ لہذا امریکہ کے سینیٹر کے طور پر میں راستہ بدلنے کا حق محفوظ رکھتا ہوں کیونکہ سعودی عرب نے بھی راستہ بدل دیا ہے۔تاہم انھوں نے بظاہر سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے چین کی ثالثی میں کیے گئے معاہدے کے حوالے سے کہاکہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ایک چیز ہے جس سے میں آپ کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ سعودی عرب کے چین کے ساتھ معاملات کو میں خاص نظر سے دیکھتا ہوں۔ اسی طرح اس کے ایران کے ساتھ معاملات پر بھی میں ایک خاص نقطہ نظر رکھتا ہوں۔شام کو عرب لیگ میں واپس لانے کی کاوشوں پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے گراہم نے کہا میں نے آپ کے ملک کی قیادت کو بتایا ہے کہ الاسد کے ساتھ کوئی بھی معاہدہ جو شمال مشرقی شام میں امریکی موجودگی کو خطرے میں ڈالے گا اس پر مزاحمت کی جائے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ بغداد میں ہمارے 2,500 فوجی ہیں۔ ایرانی ہمیں خطے سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایران نہیں چاہتا کہ امریکی عراق میں رہیں کیونکہ ہم ان کے طویل مدتی مقاصد کے راستے میں کھڑے ہیں۔