Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 07 APRIL
ابونصر فاروق
(۱) قرآن مجید اعلیٰ درجہ کی علمی کتاب ہے۔
قرآن مجید دنیا کی وہ واحدعظیم کتاب ہے جسے یقینی علم کی کتاب ہونے کا فخر حاصل ہے۔یقینی علم کی کتاب ہونے کا درجہ دنیا کی کسی کتاب کو حاصل نہیں ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی ہر کتاب انسان کی لکھی ہوئی ہے جو خود جاہل اورظالم ہے اور ہر طرح کے عیب اور نقص سے بھرا ہوا ہے۔اس کے مقابلے میں قرآن مجید اُس اللہ کی کتاب ہے جو علم کا خالق اور مالک ہے اور ہر طرح کے نقص و عیب سے پاک اُس کی ذات ہے۔وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔وہ نہ اونگھتا ہے اور نہ اُسے نیند آتی ہے۔وہ نہ بھولتا ہے اور نہ غلطی کرتا ہے۔اُسی نے کائنات کو اور کائنات کی ہر چیز کو پیدا کیا ہے۔ دنیا میں انسان کے پاس جو علم ہے وہ اللہ کا ہی دیا ہوا ہے۔انسان نے کسی بھی طرح کی معلومات اورجانکاری خود سے حاصل نہیں کی ہے۔اللہ جب چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے کسی کو چن لیتا ہے اور اُسے علم کے زیور سے آراستہ کر دیتا ہے۔
بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو خود اُس کے ماں باپ کو نہیں معلوم ہوتا کہ اُن کا بچہ مستقبل میں کیا بنے گا۔لیکن اللہ جانتا ہے کہ وہ بچہ دنیا میںکتنا بڑا عالم یا سائنس داں بنے گا اور دنیا کوکتنی قیمتی معلومات کی دولت سے نوازے گا۔کائنات کب بنی، کیسے بنی، کیوں بنی اور انسان کب پیدا ہوا کس لئے پیدا ہوا اور کیسے اس کی پہلی تخلیق ہوئی یہ ساری باتیں اس قرآن مجید میں لکھی ہوئی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے پیارے نبیﷺ کو زمین پر اپنی اس کتاب کا امین یعنی امانت دار بنایا اور یہ ذمہ داری دی کہ اسے جوں کا توں پورا کا پورا عالم انسانیت کے حوالے کر دیجئے۔اس کی ہر بات پر عمل کر کے دنیا کو دکھا اور سمجھا دیجئے کیونکہ آپ جب دنیا سے لوٹ کر واپس آئیں گے تو پھر آپ کے بعد کوئی دوسرانبی دنیا میں اس کام کے لئے نہیں آ ئے گا۔اور اس کتاب کے بعد اب دنیا میں کوئی دوسری کتاب بھی نہیں آئے گی۔چنانچہ نبی ﷺ نے اپنی پوری زندگی اپنی قوم کو اور اُس کے وسیلے سے پوری دنیا کو اس کتاب کا قولی اور عملی علم پہنچا دیا اور عرفات کے میدان میں حج کا خطبہ یتے ہوئے اللہ سے اورموجود مجمع سے گواہی لے لی کہ اُنہوں نے اپنا کام مکمل کر دیا۔نبی ﷺ کے بعدصحابہ کرام سے لے کر دور حاضر تک جس آدمی نے اپنی آنکھ ، کان ، عقل اور دل کے دریچے کھول کر قرآن کو پڑھا، سمجھااور پھر اُس نے دنیا کو وراثت میں اپنا یہ قیمتی علم دیا وہ دنیا کا سب سے بڑا آدمی بن گیا۔اور اللہ کی اس آخری کتاب کے ساتھ ساتھ وہ عظیم انسان بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ و جاوید بن گیا۔اور اب دنیا میں صاحب علم صرف وہ انسان کہلائے گاجس نے اس کتاب کا علم حاصل کیا ہے۔
جس انسان کے پاس اس کتاب کا علم نہیں ہے وہ دنیا کا سب سے بدنصیب جاہل اورجہنمی انسان ہے۔شیطان کو اس کتاب سے ایسی دشمنی ہے کہ وہ انسان کو یہ کتاب پڑھنے دینا ہی نہیں چاہتا۔لیکن وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ایمان کا دعویٰ کرنے والا اس کتاب کو پڑھے بغیر رہے گا ہی نہیں۔اس لئے انسانوں کے بیچ میں رہنے والے اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ یہ بات مشہور کرا دی کہ ا س کتاب کو سمجھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے اس لئے بغیر سمجھے اسے رٹتے رہو اور ثواب کماتے رہو۔نبیﷺ نے بھی پیشین گوئی کی تھی کہ قیامت کے قریب جہالت کا ایک دور آئے گا جب مسلمان عالم اور فاضل ہو کر بھی جاہل ہی رہیں گے اور اپنے پیچھے چلنے والوں میں علم کے نام پر جہالت پھیلائیں گے۔آج وہ دور آچکا ہے۔اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ اس کتاب کا علم اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی انسان اپنے بل بوتے پر حاصل نہیں کر سکتا ہے۔اللہ جب اپنے کسی بندے پر مہربان ہوتا ہے تو اُس کو اپنی کتاب کے علم سے سرفراز کر دیتاہے۔اس لئے جس انسان کو بھی قرآن کا علم حاصل کرنے کا شوق ہو وہ قرآن پڑھنے کے ساتھ ساتھ سچائی، ایمانداری، خوف خدا اور اللہ سے محبت کا حق ادا کرتے ہوئے اللہ سے رو رو کر دعائیں مانگے تب اللہ اُس کو قرآن کے علم سے نوازے گا۔
(۲) قرآن شریف اعلیٰ درجہ کی ادبی اور شاعری کی کتاب ہے۔
دنیا میں عربی، فارسی، اردو ،انگریزی اور ہندی ایسی زبانیں ہیں جن کے جاننے والوں میں ایک سے ایک بڑھ کر زبان داں، ادیب،شاعر، محقق اورتنقید نگار پیدا ہوئے۔عربی زبان کوان سب زبانوں پر برتری حاصل ہے۔ضروریات، حالات اور کیفیات کی ترجمانی کے لئے جو الفاظ استعمال ہوتے ہیںاُن کا ذخیرہ جس زبان میں زیادہ پایا جائے گا وہ زبان سب سے اعلیٰ اورعمدہ مانی جائے گی۔یہ صفت جتنی زیادہ عربی زبان میں ہے وہ کسی دوسری زبان میں نہیں ہے۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن کے لئے عربی زبان کو چنا۔جب اس کتاب کی آیتیں اور سورتیں نبیﷺ پر نازل ہونا شروع ہوئیں اورنبیﷺ نے قوم کو سنانا شروع کیا تو قوم حیران رہ گئی کہ قوم کے بڑے سے بڑے شاعر نے بھی ایسا کلام نہیں کہا جو یہ سنا رہے ہیں۔قوم تو پوری کی پوری ان پڑھ ہے۔جہاں تک زبان دانی کا تعلق ہے تو پوری دنیا میں ہم ہی صرف زبان والے ہیں۔ہمارے مقابلے میں ساری دنیا تو بولنا جانتی ہی نہیں ہے۔اسی لئے ہم اُن سب کو عجمی یعنی گونگا کہتے ہیں۔ایسی زبان اور ایسی باتیں تو ہم نے آج تک سنی ہی نہیں پھر ان کو یہ باتیں کہاں سے معلوم ہو گئیں ؟
قوم کے جتنے شاعر تھے وہ اپنا کلام خانہ کعبہ کی دیوار پر لکھ دیا کرتے تھے اور قوم کاسب سے بڑا شاعراُمرء القیس اُن اشعار کی خامیوں کی اصلاح کر دیا کرتا تھا۔ایک روز ایک اہل ایمان نے اُسی مقام پر سورہ کوثر لکھ دی۔اُمرء القیس جب شعروں کی اصلاح کرتا ہوا وہاں تک پہنچا تو اُس کی حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہی کہ یہ کلام کس نے لکھ دیا۔ایسا کلام تو میں خود بھی نہیں لکھ سکتا ہوں۔میرے سوا عرب میں کون ایسا انسان پیدا ہو گیا جو ایسے کلام کامالک بن گیا۔ تب اُسے بتایا گیا کہ یہ انسانی کلام نہیں ربانی کلام ہے۔یہ وہ کلام ہے جو اللہ اپنے اُس بندے پر نازل کرتا ہے جسے اُس نے دنیا کا آخری نبی بنایا ہے۔ لیکن اس بات کونہ اُمرء القیس نے مانا نہ اُس کی بد نصیب قوم نے مانا۔نہ سننے کوتیار تھی، نہ سمجھنا اورنہ اُس پر عمل کرنا چاہتی تھی۔قوم کی اس نافرمانی کا اللہ نے اُسے وہ عذاب دیا کہ بدر کے میدان میں تین سو تیرا اہل ایمان صالحین کے گروہ نے ہزاروں مشرک سورماؤں کو دھول چٹا دی اور ایسی شرم ناک شکست دی کہ دنیا میں ذلت اور ناکامی کی نہ بھولنے والی ایک تاریخ بن گئی۔
(۳) قرآن تاریخ کی کتاب ہے۔
آخری نبی حضرت محمدﷺ کے ظاہر ہونے سے پہلے کی جو دنیا ہے اُس کی کوئی لکھی ہوئی تاریخ نہیں ملتی ہے۔انسان کو اُس پرانی دنیا کے متعلق کچھ معلوم ہو ہی نہیں سکتا تھا۔لیکن قرآن کا ایک حصہ ایسے تاریخی واقعات پر مشتمل ہے جو پہلے گزر چکے ہیں۔چنانچہ خود مکہ میں ابرہہ نام کے ایک عیسائی بادشاہ نے جو فوج میں پہلی بار ہاتھی لے کر آیا تھا خانہ کعبہ کو مسمار کرنا چاہا ۔اللہ نے ابابیل کا لشکر بھیجا اور اُن پرندوں نے ابرہہ کے لشکر کو نیست و نابود کر کے رکھ دیا۔اسی عرب میں عاداور ثمود نامی قوم پیدا ہوئی تھی جو اتنی طاقت ورتھی کہ اُن کا مقابلہ کرنے کی طاقت کسی میں تھی ہی نہیں۔اور اُن کے جیسی طاقت ور قوم دنیا میں پھر پیدا کی ہی نہیں گئی۔ثمود کی قوم اتنی باکمال تھی کہ بڑے بڑے پہاڑوں کو کاٹ کر اُن کے اندر محل بناتی تھی۔اور عاد کی قوم بڑے بڑے لمبے ستونوں والی عمارتیں جہاں چاہتی تھی بنا ڈالتی تھی۔قوم کے نبی نے کہا یہ تمہاری کیا عادت ہے کہ بلا ضرورت جہاں چاہتے ہو ایک عمارت بنا دیتے ہو۔لیکن جب ان دونوں قوموں نے اپنے نبی کی بات نہیں مانی اوراللہ کی نافرمانی کی تو وہ اللہ عذاب سے تباہ و برباد کر دی گئی۔
دنیا میں جو پہلی قوم پیدا ہوئی اُس کے اندر نوح علیہ السلام نبی بنا کر بھیجے گئے جو ساڑھے نو سو برس تک قوم کو اللہ کی بندی کی دعوت دیتے رہے، لیکن قوم نے نہیں مانا اور آخر کارپانی کے طوفان کا عذاب آیا اور پوری دنیا کے انسان پانی میں غرق کر کے موت کی نیند سلا دیے گئے۔نوح علیہ السلام کی کشتی پر جوایمان والے بچ گئے تھے وہ جودی پہاڑ پر کشتی کے رکنے کے بعد پہاڑ سے نیچے اترے اور اُن کے ذریعہ پیدا ہو کر انسانی آبادی پوری دنیا میں پھیل گئی۔یوسف علیہ السلام کو اُن کے بھائیوں نے اپنی راہ کا کانٹا سمجھ کر کنویں میں پھینک دیا۔اللہ نے اُن کو کنویں سے نکال کرمصر کی سلطنت میں پہنچا دیا اور وہاں اُن کو ملک کا حاکم بنا دیا۔اس طرح اُن کی نسل جو بنی اسرائیل کہلائی مصر میں آباد ہو گئی۔وقت آیا جب مصر میں فرعون لقب والے بادشاہ کی حکومت قائم ہو گئی ۔وہ بنی اسرائیل پر یہ آفت ڈھانے لگا کہ اُن کے گھروں میں پیدا ہونے والے لڑکوں کو قتل کرا دیتا تھا اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا تھا۔
پھر اللہ کے حکم سے موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے اور فرعون کے محل میں اُن کی پرورش ہوئی۔بعد میں موسیٰ علیہ السلام اوراُن کے بھائی ہارون کو اللہ نے نبی بنایا اور فرعون کو ہدایت کا راستہ دکھانے کی ذمہ داری دی۔یہ فرعون وہ نہیں تھا جس کے گھر میں موسیٰ علیہ السام کی پرورش ہوئی تھی۔اُس وقت کے فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کی بات نہیں مانی اوراُن کی قوم سمیت اُن کو قتل کرنا چاہا لیکن اللہ نے خود فرعون اور اُس کے پورے لشکر کو دریائے نیل میں ڈبو کر اُس کا خاتمہ کر دیا۔صرف فرعون کی لاش بچ گئی اور آج تک دنیا والوں کو یہ درس دینے کے لئے محفوظ رکھی گئی ہے کہ خدا کے مقابلے میں خدائی کا دعویٰ کرنے والوں کا یہی انجام ہوا کرتا ہے۔اُسی زمانے میں بنی اسرائیل میں ایک آدمی قارون بھی تھا۔اُس کے پاس اتنی دولت تھی کہ دنیا کے کسی انسان کے پاس اتنی دولت دوبارہ ہوئی ہی نہیں۔ وہ ظالم حد سے زیادہ دولت مند ہونے کے سبب اپنی قوم سے غداری کر کے فرعون کا دوست بنا ہوا تھا او ر موسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا نبی نہیں مانتا تھا۔اللہ نے اُس پر عذاب نازل کیااور اُس کی تمام دولت سمیت اُس کو زمین میں دفن کر دیا۔یہ دنیا کی وہ سچی تاریخ ہے جو صرف قرآن میں موجود ہے۔
(۴)قرآن حمید سائنس کی کتاب ہے۔
قرآن میں داؤد علیہ السلام کا قصہ موجود ہے ۔وہ نبی ہونے کے ساتھ ساتھ بادشاہ بھی تھے۔اُن کی حکومت میں لوہے کی زنجیریں بنتی تھیں جن سے جنگ میں کام آنے والا لباس ’’زرہ ‘‘بنتا تھا۔قرآن اور نبی کی عظمت کو نہیں جاننے والوں نے مشہور کر دیا کہ داؤد علیہ السلام لوہار تھے۔آج کی دنیا کی جانکاری رکھنے والا انسان جانتا ہے کہ خام لوہا ز(Iron ore)مین کے اندر سے نکالا جاتا ہے او رپھر حد سے زیادہ گرم آگ کی بھٹی میں پگھلا کر صاف کیا جاتا ہے اور چھڑ، چادر،شہتیر اور مختلف شکلوں میں ڈھالا جاتا ہے تب اُس سے استعمال کے لئے ضرورت کے سامان بنتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ داؤد علیہ السلام کے زمانے میں Iron & steel factoryمو جود تھی۔یعنی جس سائنس پر آج کی دنیا اپنی پیٹھ تھپتھپا رہی ہے وہ پہلے زمانے میں بھی موجود تھی۔ٹاٹاآئرن اینڈ اسٹیل کمپنی جمشید جی ٹاٹا نامی پارسی مذہب کے ماننے والے نے قائم کی تھی تو کیا وہ لوہار تھا ؟
اسی طرح ایک ایسا بادشاہ گزرا ہے جس کی حکومت ساری دنیا پر تھی۔اُس کا نام ذوالقرنین بتایا گیا ہے۔ایک بار وہ اپنی سلطنت کی سیر کرنے نکلا اورزمین کے اُس کنارے تک چلا گیا جہاں سورج غروب ہوتا تھا۔پھر وہاں سے پلٹا تو زمین کے دوسرے کنارے تک چلا گیا جہاں سے سورج طلوع ہوتا تھا۔وہاں اُس نے ایک ایسی قوم کو دیکھا جس کی زبان وہ نہیں جانتا تھا۔اُس زمانے بھی مترجم(Translator) ہواکرتے تھے ۔ چنانچہ ایک مترجم کی مدد سے قوم نے بادشاہ سے فریاد کی کہ پڑوس سے یاجوج ماجوج نامی قوم آتی ہے اور اُنہیں لوٹ لیتی ہے۔ہمیں اُس قوم سے حفاظت کا کوئی انتظام کر دو۔ اس کے بدلے میں جو قیمت چاہوگے ہم تمہیں دیں گے۔ بادشاہ نے کہا :اللہ نے مجھے اتنا کچھ دیا ہے کہ اب کسی چیز کی محتاجی نہیں۔تم ہمیں صرف لوہے کی چادریں یعنی (Iron sheets ) لاکر دو۔پھر اُس قوم او ریاجوج ماجوج کے بیچ جو پہاڑ تھا اُ کے بیچ میں لوہے کی اُن چادروں کو ڈال کر اُن پر پگھلا ہوا تانبا ڈال دیا اور ایسی مضبو ط دیوار بنا دی جس کی مثال نہیں ملتی۔بادشاہ بولا اب قیامت تک دشمن قوم اس دیوار کی وجہ سے تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔لیکن جب میرا رب چاہے گا تو اس دیوار کو تہس نہس کر دے گا۔اُس کے آگے کسی کا زور نہیں چلتا۔غور کرنے کی بات ہے کہ آج چائنا اور نیپال کے بیچ پہاڑوں کے درمیان جو سڑکیں اور پل اور ریلوے لائنیں بنائی جا رہی ہیں وہ کام انسان کے ہاتھوں کے ذریعہ ہو رہا ہے یا دیو پیکر مشینیں یہ کام انجام دے رہی ہیں۔تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج دنیا ٹکنالوجی کی ترقی کے جس مقام پر پہنچ چکی ہے ،اُسی طرح اُس بادشاہ کے زمانے میںبھی ٹکنالوجی اتنی ہی ترقی یافتہ تھی۔پھر یہ کہ اُس بادشاہ نے اتنا لمبا سفر کیا پیدال کیا ہوگا۔نہیں اُس کے پاس بھی ہوائی جہاز جیسی تیز رفتار سواری رہی ہوگی۔
آج کی جو ترقی یافتہ دنیا ہے وہ انسانوں کی کوشش کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ خالق کائنات نے ہر دور میں ایسے بندے پیدا کئے جنہوں مادی دنیا کی چھپی ہوئی طاقت کو ڈھونڈ نکالا اور دنیا کو ترقی کے مقام تک لا ئے۔ اس ترقی کی شروعات اُس وقت ہوئی تھی جب اہل ایمان دنیا میں حاکم بن کر جی رہے تھے۔ لیکن جب وہ دولت اور دنیا کی پرستار بن کر عیش و عشرت میں کھو گئے تومیدان خالی دیکھ کر عیسائی اور یہودی قوم آگے بڑھی اورمسلمانوں کے کام کو تحقیق و تفتیش کے ذریعہ آج دنیا کی حاکم بن گئی۔ اور مسلم ملت عیسائیوں اور یہودیوں کی غلام بن کر ذلت و رسوائی کی زندگی جی رہی ہے ۔(سلسلہ جاری ہے،اگلی قسط پڑھئے)
ضضضضض
رابطہ:8298104514